ہمارا دور رسول اﷲ اکے صدیوں بعد کا دور ہے، اس میں اختلافات کی وسعت اور پھیلاؤ کا کیا کہنا، ایک سے بڑھ کر ایک نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں ، کچھ دین کے نام پر دین کا لبادہ اوڑھ کر، بظاہر دین معلوم ہوتی ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین سے ان کا تعلق نہیں ہے، ایسے امور جو بظاہر دین کے رنگ میں ہیں ، اور دین ہی کے نام پر انھیں نجام دیا جاتا ہے، مگر ان کی حیثیت دین میں اضافہ کی ہے، شریعت کی اصطلاح میں انھیں بدعت کہا جاتا ہے، نفس انسانی نے اپنے خواہشات …کی بنیاد پر ہر زمانے میں بدعات ایجاد کرنے کی جرأت کی ہے، لیکن اس وقت ہم جن نئے امور کا جائزہ لینا چاہتے ہیں وہ بدعات سے کچھ مختلف رنگ کے ہیں ، ان کا تعلق دین میں ، دینی احکام میں اور دینی افکار وعقائد میں سستی، اضمحلال ، اورعلم دین میں رسوخ نہ ہونے سے ہے، دینی احکام اور دینی عقائد نفس پر گراں گزرتے ہیں ، اس لئے آدمی ان سے صرف نظر کرتا ہے،پھر یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اس پر طعن کیا جائے گاکہ یہ دین سے بر گشتہ ہو رہا ہے، جب کہ وہ چاہتا ہے کہ دین سے اس کا گہرا اور پختہ تعلق تسلیم کیا جائے، اس لئے وہ حیلوں اور بہانوں سے کام لیتا ہے، اور ان حیلوں کو دینی دلائل وشواہد سے دین کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔
اس طرح کے نئے امور میں کچھ تو صریح اور قطعی گناہ ہیں ، مثلاً مسلمانوں کا معاشرہ جو رسول اﷲ انے تیار کیا تھا وہ فرائض وواجبات اور سنن ومستحبات کے نور سے معمور تھا، نمازوں میں خشوع وخضوع کی فراوانی تھی، ہر عبادت میں اس کی اصل روح اخلاص وانابت موجود تھی، پھر نفوس انسانی کی ناپختگی نے کچھ کچھ چیزوں کو گراں سمجھ کر چھوڑنے اور رد وبدل کرنے کا سلسہ شرع کیا، مسلمانوں کے پختہ دیندار طبقہ نے اس ترک اور ردو بدل کا مقابلہ کیا، لیکن آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ عبادت کے اہتمام کی جگہ گناہوں کے رواج نے لے لی، شریعت کے آداب کو چھوڑ کر لوگ مکروہات میں گرنے لگے، نماز، جس کے چھوڑنے کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، ہمارے زمانے تک آتے آتے اس کا ترک، اس کے عمل سے آگے نکل گیا، مالدار طبقے سے زکوٰۃ کا اہتمام نکلا اور نام و نمود اور لہو