ہے کہ ، کہ اسے ادب کا معاملہ برتنے میں شرک کا وہم ہوتا ہے ، حالانکہ وہ شرک نہیں ہے۔
الحذر! الحذر!! کبھی بھی ان چیزوں کے متعلق کوئی نازیبا بات نہیں کرنی چاہئے ، اور نہ کوئی نازیبا رویہ اختیار کرنا چاہئے ، جن کا خصوصی تعلق اﷲ ورسول سے ہے، دین اسلام سے ہے ، جو ہمارے دین ومذہب کی علامت ہیں ۔ آج داڑھی کا مذاق اڑانا فیشن ہے ، علماء وحفاظ کے ساتھ بے ادبی کا معاملہ کرنا روشن خیالی ہے ، فقہی وشرعی مسائل کی توہین تو وہ لوگ بھی کرنے لگ جاتے ہیں جو بظاہر دیندار کہلاتے ہیں ، کتنے غیبی حقائق ایسے ہیں کہ ان پر یقین رکھنا مدارِ ایمان ہے ، لیکن مسلمانوں میں کتنے ایسے ملیں گے جو تذبذب کے شکار ہیں ، اور اس تذبذب کااظہار زبان سے بصورت بے ادبی کرتے رہتے ہیں ۔
ایک جگہ دو آدمی آپس میں الجھے ہوئے تھے ، باہم دست وگریبان تھے ، گالیاں بک رہے تھے ، ایک صاحب نے انھیں اس سے باز رکھنا چاہا ، مگر غصہ کا بھوت اتنی جلدی کہاں اترتا ہے ، پھر سمجھانے والے نے کہا کہ اﷲ کا خوف کرو ، لکھنے والا تمہاری گالیوں کو لکھ رہا ہے ، تو دونوں اس کے سر ہوگئے کہ کہ کیا آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی لکھ رہا ہے ، پھر نوبت غیبی حقائق کے مذاق تک پہونچ گئی۔
اس طرح کے واقعات روز مرہ پیش آتے رہتے ہیں ، آدمی نڈر ہوگیا ہے ، جو چاہتا ہے بک دیتا ہے ، حالانکہ گستاخیوں کاانجام کبھی کبھی فوری طور پر بھی ظاہر کردیا جاتا ہے ، ویسے عام دستور الٰہی یہ ہے کہ حق تعالیٰ حلم اور ستاری سے کام لیتے ہیں ، تاکہ آدمی کو توبہ کا موقع رہے ، مگر کبھی کبھی موقع پر پکڑ آجاتی ہے۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِھَا مَنْ یَّشَائُ وَھُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اﷲِ وَھُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِ( الرعد: ۱۳) اور بھیجتا ہے کڑکتی بجلیاں ، پھر ڈالتا ہے جس پر چاہے اوریہ لوگ جھگڑتے ہیں اﷲ کی بات میں ، حالانکہ وہ سخت قوت والا ہے۔
اس آیت کے سببِ نزول کے تحت علامہ ابن کثیرؒ نے مسند ابویعلیٰ سے حضرت انس صکے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ ا نے عرب کے ایک متکبر