قَاعِـــدُوْنَ( سور مائدہ : ۲۴ ) ( اے موسیٰ جب تک وہ لوگ اس میں ہیں ، ہم ساری عمر ہرگز اس میں نہیں داخل ہوں گے ، پس تمہیں جاؤ اور تمہارا رب جائے ، اور تم دونوں جنگ کرو ، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔)یہ بے ادبی اس اولوالعزم نبی کے ساتھ وہ کررہے ہیں ، جو ان کو مصر سے نجات دلاکر بغیر کسی جانی ومالی نقصان کے نکال لایاتھا۔
یہ گستاخانہ کلام نبی کی بھی توہین ہے اور خدا کی بھی ۔ ایک جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اﷲِ مَغْلُوْلَۃٌ(المائدۃ: ۶۴) یہود نے کہا کہ اﷲکا ہاتھ بند ھ گیا ہے۔دوسری جگہ فرمایا :{لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیاَئُ سَنَکْتُبُ ماَقاَلُوْا وَقَتْلَھُمُ الْاَنْبِیآئَ بِغَیْرِ حَق وَ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابِ الْحَرِیْقِ۔( آل عمران:۱۸۱)بے شک اﷲ نے ان لوگوں کی بات سنی جنھوں نے کہا کہ اﷲ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں ، اب ہم لکھ رکھیں گے ان کی بات ، اور وہ خون بھی جو انھوں نے انبیاء کے ناحق کئے تھے ، اور کہیں گے کہ جلتی آگ کا عذاب چکھو۔
ان آیات کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اﷲ کی شان میں ، رسول کی شان میں ، دین کے باب میں ، دینی شعائر کے سلسلے میں گستاخی اور بے ادبی کتنی سنگین غلطی ہے ، دین سارا کاسارا احترام وادب ہے ، اور بے ادبی تمامتر بے دینی ہے ۔ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں ان امور کو تفصیل کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ جو ملت قرآن کریم پر ایمان رکھتی ہے ، رسول اﷲ اکو جان سے زیادہ مانتی ہے ، اﷲ ورسول کی وفاداری کا دم بھرتی ہے ، وہ اپنا دامن ان بے ادبیوں ، گستاخیوں سے بچائے رکھے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ جو غضب یہود پر نازل ہواتھا ، اس کے چھینٹے ادھر بھی آجائیں ، اس سے بچانے کا اﷲ تعالیٰ نے اتنا اہتمام فرمایا ہے کہ ہر نماز میں اور نماز کی ہر رکعت میں اپنے بندوں کی زبان سے یہ دعا دہرائی ہے کہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن
اسی کے ساتھ حق تعالیٰ نے خصوصی کرم یہ فرمایا کہ قرآن کریم میں ادب واحترام کا سلیقہ خود سکھایا ، کہ اﷲ ورسول کا احترام کیونکر کیا جائے ؟ اس کے حدود کیا ہیں ؟ آداب