اوپر غضب کا تذکرہ موجود ہے ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بِئْسَمَا اشْتَرَوْابِہٖ اَنْفُسَھُمْ اَنْ یَکْفُرُوْا بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ بَغْیاًاَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَن یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ فَبَآئُ وْابِغَضَب عَلٰی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ( البقرۃ: ۹۰) بری ہے وہ چیز ، جس کے عوض انھوں نے اپنے آپ کو بیچا ، کہ انھوں نے اﷲ کی نازل کردہ کتاب کا محض اس ضد کی وجہ سے انکار کیا کہ اﷲ تعالیٰ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے کیوں اتارے، پس وہ غضب بالائے غضب حاصل کرلائے ، اور کافروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
اس آیت میں یہودہی کا تذکرہ ہے ، انھیں ہی غضب بالائے غضب کامورد قرار دیا گیا ہے ۔ اس طرح سورہ مائدہ میں یہود کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے : قُلْ ھَلْ أُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اﷲِ مَنْ لَعَنَہُ اﷲُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَوَعَبَــــدَ الطَّاغُوْتَ اُوْلٰئِکَ شَـــرٌّ مَّکَاناً وَّأَضَلَّ عَنْ سَوَائِ السَّبِیْلِ ( المائدۃ: ۶۰) تم کہو ، کیا میں تم کو وہ بات بتلاؤں ، جس کی سزا اﷲ کے نزدیک سخت ترین ہے ، وہی جس پر اﷲ نے لعنت کی ، اور اس پر غضب نازل کیا ، اور ان میں سے بعضوں کو بندر اور بعضوں کو سوّر بنادیا ، اور جس نے شیطان کی عبادت کی ، یہی در جہ میں بدتر اور سیدھی راہ سے بہت بھٹکے ہوئے ہیں ۔
یہودیوں کی خاص امتیازی بدبختی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے بدعملی اور گستاخی میں مبتلا تھے ، اور اسی وجہ سے ان پر خصوصی غضب اترا، ان کی شرارتوں اور بے ادبیوں کا نقطۂ عروج یہ تھا کہ وہ رسولوں کی شان میں سخت گستاخیاں کرتے تھے ، چنانچہ قرآن کریم میں ان کی شرارتوں کا ذکر ہے کہ ان کے ہاتھ انبیاء کے قتل میں ملوث ہیں ، ان کے دامن پر صالحین کے خون کے دھبے ہیں ، اور آخری حد یہ ہے کہ وہ خدا کی بارگاہِ عالی میں بھی زبان درازیاں کیا کرتے تھے ۔ ایک وقت وہ تھا جب حضرت موسیٰ ں نے اپنی قوم کو دعوت دی کہ فلاں قوم سے جنگ کرو اور ’’ ارضِ مقدسہ ‘‘ کو حاصل کرو ، تو چند لوگوں کے علاوہ قوم نے جواب دیا: یَامُوْسیٰ إِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَا اَبَداً مَّادَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ أنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إنَّا ھٰھُنَا