مقصد پر ہی آدمی ٹوٹا پڑا ہوا ہے، غیروں کی نقالی میں ہم نے اپنی پونجی گنوا دی ہے، ایک ایمان والا کسی کافر کی نقالی کرے، اُدھر رجحان رکھے، یہ بڑی بد نصیبی کی بات ہے، اﷲ کو ماننے والا دنیوی خرافات کو مطمحِ نظر بنا لے! ترقی ٔ معکوس ہے، یہود و نصاری اور کفار و مشرکین، غضب الٰہی کے شکار ہیں ، صحیح راہ سے کوسوں دور ہیں ، ان کا طریقہ اختیار کرنے والا، ان کی معاشرت کو پسند کرنے والا، اﷲ کو کیونکر راضی کر سکتا ہے؟
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { و لا تَرْکَنُوا اِلَی الَّذینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ و ما لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مِنْ اَوْلِیائَ ثُمَّ لا تُنْصَرُوْنَ} (سورۂ ھود: ۱۱۳) اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں ، پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمھارا اس کے علاوہ مددگار، پھر کہیں مدد نہ پاؤگے۔
یعنی جو لوگ ظالم ہیں ، اور ظالم کون؟ اﷲ کی باندھی ہوئی حدوں سے نکل جانے والا، فرماتے ہیں کہ ظالموں کی طرف تمھارا ذرا سا میلان اور جھکاؤ بھی نہ ہو، ان کی موالات، مصاحبت، تعظیم و تکریم، مدح و ثنا، ظاہری تشبہ، اشتراک عمل، ہر بات سے حسب مقدور محترز رہو، مبادا آگ کی لپٹ تم کو لگ نہ جائے، پھر نہ خدا کے سوا تم کو کوئی مددگار ملے گا، اور نہ خدا کی طرف سے کچھ مدد پہونچے گی۔
کفار کی طرف دل کا میلان بغایت خطرناک ہے، اس سے اس طرح بچنا چاہئے، جیسے آدمی سانپ بچھو سے بچتا ہے، کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں چیز کھانے سے یقینی طور پر کینسر ہو جاتا ہے، تو اس کے پاس کبھی نہ جائے گا، لیکن ہم ایمان رکھتے ہوئے، انھیں راستوں میں گھستے ہیں ، جن کی انتہا جہنم پر ہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے ارشاد فرمایا ہے کہ {وَ اِنْ کادوا لَیَفْتِنونَکَ مِنَ الَّذی اَوْحَینا اِلَیکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَینا غَیْرہٗ و اِذاً لاتَّخَذُوکَ خَلیلاً۔ و لَوْ لا اَنْ ثَبَّتْناکَ لَقَدْ کِدْتَ تَرْکَنُ اِلَیْھِمْ شَیْئاً قَلیلاً۔ اِذاً لَاَذَقْناکَ ضِعْفَ الْحَیوٰۃِ و ضِعْفَ الْمَماتِ ثُمَّ لا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنا نَصِیْراً} (سورۂ بنی اسرائیل: ۷۳-۷۴-۷۵) ان کفار کا مقصد یہ ہے کہ ہم جو کچھ بذریعہ وحی تمھارے پاس علوم و احکام بھیج رہے ہیں ، ان سے تمھیں ہٹادیں ، اس کے لیے یہ سازشیں کرتے ہیں ، ورغلاتے ہیں ، دنیا کے سبز باغ دکھاتے ہیں ، تاکہ تم اس کا کچھ حصہ ترک کر دو، یا بدل