والوں سے معافی تلافی کا سلسلہ چل پڑتا تھا، اور جب واپسی ہوتی تھی، تو وہ نہیں رہتے تھے جو پہلے تھے، مگر دیکھتے ہی دیکھتے رنگ بدل گیا، اب تو حج سے پہلے اور حج کے بعد کی زندگی میں بسا اوقات کوئی فرق نہیں ہوتا، اگر یہ ہوتا کہ حج سے پہلے بھی دیندار اور متقی تھے، اور حج کے بعد بھی یہ وصف قائم اور باقی رہا، تو کیا بات تھی! مگر ہوتا یہ ہے کہ نہ حج کے پہلے دینداری اور تقویٰ کا اثر ہے اور نہ حج کے بعد اس کی جھلک!
اے حضرات! یہ دنیا اور دنیا کی زندگی اس لیے نہیں ہے کہ آدمی اپنا دل دماغ اسی دنیا میں کھپا دے، اس کی سوچ کا محور بس یہ ہو کہ دنیاوی تقاضوں کو کیونکر عیش و راحت سے پورا کیا جائے، یہ تو انسان کا بڑا گھٹیا مقصد ہے، بلکہ تنگ نظری ہے گو کہ اس دور میں اسی قسم کے لوگ عقلمند کہے جاتے ہیں ، لیکن خالقِ کائنات جل ّذکرہ ارشاد فرماتے ہیں {اِنَّ الَّذینَ لا یَرْجونَ لِقائَ نا وَ رَضُوا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیا و اطْمَاَنُّوا بِھا وَ الَّذینَ ھُمْ عَنْ آیاتِنا غٰفِلُوْن۔ اُولٰئِکَ ماوٰھُمُ النَّارُ بِمَا کانوْا یَکْسِبُونَ} (سورۂ یونس:۷؍۸) وہ لوگ جو ہمارے پاس آئے اور ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، اور وہ دنیاوی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو بیٹھتے ہیں ، اور نیز وہ لوگ جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ، بلا شبہہ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے افعال کے عوض جہنم ہے۔
یعنی دنیا میں ایسا دل لگایا کہ آخرت کی اور خدا کے پاس جانے کی کچھ خبر ہی نہ رہی، اسی چند روزہ حیات کو مقصود و معبود بنا لیا، سارا کچھ کرنا دھرنا، خوشی و غم اور تگ و دو اسی زندگی کے لیے وقف ہو کر رہ گئی، اس کا آخری انجام یقینا وہی ہے، جس سے اﷲ نے ڈرایا ہے، یہ وصف ہے تو کفار و مشرکین کا، لیکن ہم مسلمانوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے کہ یہ وصف اور یہ حال ہمارے اندر کتنا پایا جاتا ہے، عقیدے کی حد تک بلا شبہ ہر مسلمان کا دل صاف ہے کہ آخرت کی پیشی ہونی ہے، مگر یہ عقیدہ ہمارے روز مرہ کے حالات و معمولات میں کتنا مؤثر ہے؟ ہمارے طرزِ فکر اور کفار و مشرکین کے طرزِ فکر میں کتنا فرق ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ آخرت ہماری نگاہوں سے اوجھل سی معلوم ہوتی ہے، اور دنیاوی