جس کی قیمت سارا عالم نہیں ہو سکتا، یہاں کا ہر ذرہ آفتاب سے بڑھ کر روشن ہے، یہ مسجدِ نبوی ہے، یہ محراب نبی ہے، یہ منبرِ رسول ہے، یہ روضۂ اطہر ہے، یہ صفہ ہے، یہ بابِ جبرئیل ہے، یہ بابِ رحمت ہے، یہ جنت البقیع ہے، اس میں صدہا لعل و گہر چھپے ہوئے ہیں ، یہ احد پہاڑی ہے، جس کو خون شہداء کے طفیل حیات جاوداں ملی، اس کا دل اہلِ ایمان کی محبت میں دھڑکتا ہے، یہ غزوۂ خندق کے آثار و علائم ہیں ، جہاں پہونچ کر سورۂ احزاب کی آیات بے ساختہ یاد آ جاتی ہیں ، یہ مسجدِ قبا ہے، جس نے پہلے پہل رسول اکرم ا کے دستِ مبارک سے شرف تعمیر پایا تھا۔
اور کیا کیا ہے؟ عقیدتوں کی سوغات ہے، محبتوں کے تحفے ہیں ، اشکہائے ندامت کی بارش ہے، دل کی بیتابیاں ہیں ، ان کے جلوے ہر طرف بکھرے پڑے ہیں ، تنگی داماں کی شکایت رہ جاتی ہے، ورنہ ادھر سے بخشش و عطا میں کوئی کمی نہیں ہے، حجاج کرام یہ ساری تجلیاں ، یہ تمام سوغاتیں دامنِ دل میں سمیٹ کر لائے ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ تمام مسافرانِ حرم کے حج و عمرہ کو قبول فرمائیں ، اگر کسی نے حج اس کے شرائط و آداب کے ساتھ کیا، اس کی ظاہری و باطنی پابندیوں کو بجا لایا، تو وہ اس طرح لوٹتا ہے، جیسے آج ہی وہ ماں کے شکم سے وجود میں آیا ہو، اس پر کسی گناہ کا اثر باقی نہیں رہتا، کتنے مبارک ہیں وہ بندے جو رحمت و مغفرت کے دریا میں غوطہ زن ہو کر اس طرح نکلے ہیں کہ ان کے اوپر میل کچیل کا کوئی دھبہ موجود نہیں ، یہ دعا مانگیں تو ان کی دعا قبول، یہ کسی کی سفارش کریں تو ان کی سفارش منظور!
حجاج بیت اﷲ زندگی کا ایک نیا دور لے کر لوٹے ہیں ، اﷲ نے بڑا احسان کیا کہ پچھلے گناہوں کو دھو کر صاف کر دیا، اب اس صفائی ستھرائی کی حفاظت اور اس کے بقاء کی ضرورت ہے، زندگی میں جو تبدیلی اﷲ کی جانب سے آ چکی ہے، اسی محور پر باقی زندگی گزارنے کا اہتمام چاہئے۔ ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا کہ جب کوئی حج کا ارادہ کرتا تو اسی وقت سے اس کے اوپر دینداری کی ظاہری علامات طلوع ہونے لگتی تھیں ، چہرے پر ڈاڑھی نہیں ہے تو چھوڑ دی جاتی تھی، نمازوں کا اہتمام شروع ہو جاتا تھا، رشتہ داروں اور تعلق