سے نوازا ہے ، ان کے مال کا عمومی مصرف وہ خود غور کریں کہ کیا چیز ہے؟ گناہ کی چیزیں اس مال سے خریدی جارہی ہیں ، جہاں کوئی موقع خرچ کرنے کا نہیں ہے ، یا ہے تو ایک محدود اندازے سے خرچ کرنا کافی ہوتا ہے ، وہاں کس طرح بے تحاشا مال خرچ ہورہا ہے ، نکاح ، ختنہ ، عقیقہ ، فضول دعوتیں ، تفریحات ، پکنک ، گھروں کی زینت اور اﷲ جانے کتنی کتنی بلائیں ہیں ، جن میں مال بے تحاشا پھونکا اور بہایا جارہا ہے، اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی مواقعِ خیر پر خرچ کرنے سے محروم ہوجاتا ہے ، شادی بیاہ میں لاکھوں لاکھ خرچ کرنے سے زکوٰۃ دینے کی سعادت سے ہٹادیا جاتا ہے ، فضول تفریحات اور پکنکوں میں پیسے برباد کرنے والے ، صدقاتِ نافلہ کا ثواب کیونکر حاصل کرسکتے ہیں ؟ غلط مقدمات لڑنے والے ، دوسروں کی ہلاکت کی سازشیں کرنے والے حج وزیارت کی سعادت کب پاسکتے ہیں ؟
واقعہ یہ ہے کہ ایک برائی دوسری برائی کو جنم دیتی ہے ، اور مال سے پھیلنے والی برائیاں تو جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہیں ، جو پورے معاشرے کو خاکستر بنادیتی ہیں ، یہ مال اس لئے نہیں ہے کہ اس سے برائیاں پھیلائی جائیں ، بلکہ اس لئے ہے کہ اس کی زکوٰۃ نکال کر اپنے لئے بھی ، اپنی آخرت کے لئے بھی اور اپنے معاشرے کے غریب وکمزور افراد کے لئے نفع وبہبودی کا سامان کیا جائے ۔ اگر باقاعدہ ہر صاحب ثروت زکوٰۃ ہی نکالتارہے اور صحیح مصرف میں پر پہونچانے کا اہتمام کرتا رہے ، تو مسلمانوں کے درمیان سے کتنے مصائب کا خاتمہ ہوجائے ۔ اﷲ تعالیٰ توفیق دیں ۔
( رجب تا رمضان۱۴۲۳ھ ؍ نومبر،دسمبر۲۰۰۱ء،جنوری ۲۰۰۲ء)
٭٭٭٭٭