کھاتاپیتا رہے۔
سلف صالحین نے اس بات کو بھی اسراف میں داخل کیا ہے کہ آدمی ہر وقت کھانے پینے کے دھندے میں مشغول رہے ، یا اس کو دوسرے اہم کاموں سے مقدم جانے ، جس سے یہ سمجھا جائے کہ اس کا مقصد زندگی یہی کھانا پینا ہے۔
ایک حدیث میں رسول کریم انے اس کو بھی اسراف میں داخل فرمایا ہے کہ جب کسی چیز کو جی چاہے ، اس کو ضرور ہی پورا کرے : إن من الاسراف أن تاکل مااشتھیت۔( ابن ماجہ) یہ بھی اسراف ہے کہ جس چیز کا جی چاہے ، اسے کھاہی لو۔
امام بیہقی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو ایک مرتبہ رسول اﷲ انے دیکھا کہ دن میں دو مرتبہ انھوں نے کھانا کھایا، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ! کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہارا شغل صرف کھانا ہی رہ جائے ۔ ( یہ دونوں حدیثیں معارف القرآن ج:۳، ص: ۵۴۶ سے لی گئی ہیں )
اسراف حرام ہے ، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ، اسراف کرنے والوں سے اﷲ کو محبت نہیں ہے ۔ طاہر ہے کہ جو چیز باعثِ ناپسندیدگی ٔ خدا وندی ہو، وہ حرام ہی ہوگی۔
اسرا ف ہی کے قریب قریب ایک اور چیز ہے ، جسے ’’ تبذیر ‘‘ کہاجاتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَاتُبََذِّرْ تَبْذِیْراً إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْراً،( بنی اسرائیل: ۲۶؍۲۷)اور بے جا مت اڑاؤ ، بے شک مال کو بے اجا اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
’’ تبذیر‘‘ یہ ہے کہ گناہوں میں اور لغویات میں مال خرچ کیا جائے ، یامباحات میں نے سوچے سمجھے اتنا خرچ کردے جو آگے چل کر حقوق واجبہ کو ضائع کردے ، یا ارتکاب حرام کا سبب بن جائے۔
ہمارے معاشرے میں اسراف اور تبذیر کا طوفان کھڑا ہے ، اﷲ نے جن کو دولت