کے لئے جہنم کی آگ ہی مناسب ہے۔
تو مسلمانوں کے معاشرہ کی اصلاح کا مدارِ کار حلال اور جائز آمدنی پر ہے ، اس چیز کی بے احتیاطی نے اعمالِ خیر کی صلاحیت برباد کردی ہے ، نیکیوں کا حوصلہ چھین لیا ہے ، توفیقِ نیک سلب ہوکر رہ گئی ہے۔
پھر اس کے بعد مال کے خرچ کاایک مسئلہ ہے ، جس طرح ایک مسلمان مال کی کمائی میں احکام وہدایات کا پابند ہے ، ٹھیک اسی طرح مال کے خرچ کرنے میں بھی اﷲ تعالیٰ کے ا حکام وہدایات کا پابند ہے ، اسے ا ختیارنہیں ہے کہ جس طرح چاہے اﷲ کی دی ہوئی اس امانت میں تصرف کرے ۔ اس کے خرچ کے کچھ مواقع تو خالص عبادت ہیں ، مثلاً پورے حساب اور اہتمام سے زکوٰۃ نکالی جائے اور مستحقین کو دی جائے ، صدقہ فطر ادا کیا جائے ، نفلی صدقات وعطیات کا نظام رکھا جائے ، فرض ہوتو حج میں مال خرچ کیا جائے ، کسی مصیبت زدہ کی مدد کی جائے ، صدقہ جاریہ کا انتظام کیا جائے ، مال خرچ کرنے کے یہ وہ مواقع ہیں جو انسان کو بلندی کی معراج پر پہونچاتے ہیں ، یہ بندہ خدا کا خاص بندہ بن کر رہتا ہے۔
کچھ مواقع مال خرچ کرنے کے وہ ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی اور باہمی تعلق اور خاندانی اشتراک کی ضرورت سے ہے ، جیسے خود آدمی کااپنا کھانا پینا ، کپڑا پہننا، مکان بنانا، دواعلاج ، اپنے اہل وعیال کی خبر گیری وغیرہ ۔ یہ سب چیزیں ضرورت کا درجہ رکھتی ہیں ، عبادت نہیں ، ان میں نیت درست ہو تو ، شریعت کے احکام اور اعتدال ومیانہ روی کااہتمام ہو تو مال یہاں بھی ثواب کا ذریعہ ہے۔
لیکن ضرورت کے ان مواقع پر خرچ کرنے میں اﷲ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے کہ:کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ O ۔ ( کھاؤ اور پیو، مگر اسراف مت کرو ، بے شک اﷲ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے)
اسراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی مقررہ حد سے آگے نکل جائے ، مثلاً یہ بھی ہے کہ حلال سے تجاوز کرکے حرام تک پہونچ جائے ، یہ بھی اسراف ہے کہ آدمی ضرورت سے زائد