فراوانی ٔ مال ودولت کی یہ فتنہ سامانیاں ایسی نہیں ہیں کہ ان کی نشاندہی کی جائے ، یہ معاشرہ کا ناسور ہے ، جن کے پاس مال کی بہتا ت ہے ، وہ اپنا احتساب خود کرلیں کہ یہ مال انھیں کن وادیوں میں پہونچاتا ہے ۔ مال کا اگر صحیح استعمال ہو ، صحیح طریقے سے حاصل کیا جائے اور صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے ، نیت بھی درست ہو ، تو یہ مال جنت تک پہونچنے کا ، اﷲ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کا ایک بہترین راستہ ہے ۔ جائز ذرائع سے مال کمایا جائے ، حرام کے دروازے اپنے اوپر بند کردئے جائیں ، کسب مال میں خیانت نہ کی جائے ، جھوٹ اور جھوٹی قسموں سے بچا جائے ، جن چیزوں کی خرید وفروخت کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ، اور جن ذرائع کو غلط قرار دیا ہے ، ان سے بچنے کا اہتمام کیا جائے ، پھر کسب مال میں انہماک کی وجہ سے نماز وتلاوت اور ذکرِ الٰہی سے غفلت نہ برتی جائے ، تو آدمی کے ہاتھ میں آنے والا مال بابرکت ہوگا ، اس سے قلبی اطمینان حاصل ہوگا ، اﷲ کی طرف سے اس کی مدد ہوگی ، دل میں اچھے ارادے اور اچھی نیتیں پیدا ہوں گی ، ’’ عمل صالح ‘‘ کا جذبہ بیدار ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ : یَااَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحاً إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ () یعنی اے رسولو! حلال اور پاک روزی کھاؤ ، اور نیک اعمال کرو ، میں تمہارے اعمال سے واقف ہوں ۔
اس آیت کریمہ میں ’’ عمل صالح ‘‘ کے حکم کو اﷲ تعالیٰ نے حلال وپاکیزہ روزی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال روزی ، اعمالِ صالحہ کا سبب بنتی ہے ، بلکہ وہ مدارِ کار ہے ، وہ نہ ہوتو ’’ اعمالِ صالحہ‘‘ بھی گھٹ کر بلکہ مٹ کر رہ جائیں گے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص صنے رسول اﷲ اسے درخواست کی کہ میرے لئے دعا فرمادیجئے کہ میں مستجاب الدعوات ہوجاؤں ، یعنی جو دعا کروں قبول ہوجایا کرے ۔ آپؐ نے فرمایا سعد! اپنا کھانا حلال اور پاک بنالو، مستجاب الدعوات ہوجاؤگے ، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے ، بندہ اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ، اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہو ، اس