آخرت سے غافل کرنے اور اﷲ کے احکام کے مقابلے میں بغاوت کرنے کا سب سے مؤثر محرّک عموماً مال ہی ہوتا ہے ۔ آدمی مال کی تحصیل میں بھی اور مال حاصل ہوجانے کے بعد اس کے استعمال میں بھی غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔یہ نہیں کہ مال کی تحصیل سے ،اور اس کے کمانے سے اﷲ کے رسول انے منع فرمایا ہو۔ نہیں یہ تو ایک امرِمباح ہے ، منع جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ مال کی محبت میں ایسا انہماک ہو جائے کہ آدمی اﷲسے، اﷲ کے احکام سے ، اﷲ تعالیٰ کے دین سے، فکر آخرت سے غافل ہوجائے ، لیکن مال کی محبت اور اس کی رغبت میں عموماً یہی ہوتا ہے ، آپ خود اپنی ذات میں دیکھ لیں ،اپنے گردوپیش پر نظر ڈالیں ، آپ کو ہر جگہ ۔۔۔۔۔إلا ماشاء اﷲ۔۔۔۔۔ یہی دکھائی دے گا کہ مال گھر میں بڑھا اور طبیعتوں کا انداز بدلا، ملنے جلنے والوں کا حلقہ بدلا ، زندگی کا معیار بدلا ، سوچنے کا پیمانہ بدلا ، سب سے اول اس کا حملہ آدمی کے دین ہی پر ہوتا ہے۔
رسول اکرم ا کا ارشاد ہے:ما ذئبان جائعان اُرْسِلا فی غنمٍ بافسد لھا من حرص المرء علی المال والشرف لدینہٖ( ترمذی ودارمی)دوبھوکے بھیڑئیے ،جو بکریوں کے گلّے میں بھیج دئے گئے ہوں ، ان بکریوں کو اتنا نہیں برباد کرسکتے ، جتنا کہ آدمی کی حرصِ مال اور حرصِ جاہ اس کے دین کو برباد کرتی ہے۔
تو مال اس وقت سخت برا اور آفت ہے جب وہ دین کو برباد کردے، اور یہی زیادہ ترہوتا ہے ، اس لئے اس سلسلے میں اتنے سخت ارشادات ہیں ۔ حُبِّ مال کے لئے حُبِّ جاہ لازم ہے ۔آدمی کے پاس مال زیادہ ہوتا ہے تو اسے شدید خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس سے مرعوب رہیں ، اس کے سامنے خادمانہ طور پر حاضر رہیں ، اس کے سامنے جبینِ نیاز ٹیکے رہیں ، اور جب یہ بات پیدا ہوتی ہے تو بندہ بنے رہنے پر راضی نہیں ہوتا ہے ،ا س میں خدائی اور کبریائی کے ناز وانداز آجاتے ہیں ،اب وہ خدا کے احکام کا پابند نہیں ہوتا ، بلکہ لوگوں کو اپنے احکام کا پابند بنانے کی کوشش کرتا ہے ، بندگی سے یہ بغاوت اور کبریائی حدود میں اس کی سرکشی بالآخر اس کے دین کو کھاجاتی ہے۔