رہو، بلا شبہ تم یقیناً سیدھی ہدایت پر ہو)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اﷲ ا نے تحریف شدہ رسوم جاہلیت کے خلاف جو شریعت حقہ کا نظام عبادت پیش کیا وہ اختلاف اور نزاع نہیں ہے، قرآن حکم دیتا ہے کہ تحریف شدہ طریقۂ عبادت کو اختیار کرنے والے رسول سے نزاع نہ کریں ، کیونکہ رسول ٹھیک ٹھیک حق و ہدایت پر گامزن ہیں ، اب جو ان سے منحرف ہوگا، وہی نزاع کا مرتکب ہوگا۔ اہل حق کے بارے میں یہ کہنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ انھوں نے نزاع کیا، وہ اختلاف کے مرتکب ہوئے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ پیغمبر کا حق پر ہونا بالیقین ہے، ان سے اختلاف کرنے والا یقیناً نزاع کا مرتکب ہے، لیکن جو لوگ پیغمبر نہیں ہیں ،وہ معصوم نہیں ہیں ، ان کی رائے کا صحیح ہونا یقینی نہیں ہے، اس لیے ان کی طرف نزاع کی نسبت درست ہو سکتی ہے، کیونکہ ان کے حق کا ہونا قطعی نہیں ہے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حق کا معیار آج بھی موجود ہے، اگر اس معیار پر کوئی بات اترتی ہے، تو حق کہنا ہی پڑے گا، اجتہادی امور میں بے شک یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید حق دوسری طرف ہو، لیکن جہاں قرآن کی نص قطعی ہو، اس کی دلالت واضح ہو، یا مسئلہ امت کے درمیان متفق علیہ ہو، یا حضرات صحابہؓ و تابعین یا حضرات ائمہ اربعہ کا کسی مسئلہ پر اجماع ہو، تو اس کا حق ہونا بالکل واضح ہے، تین طلاق کا مسئلہ، بیس رکعت تراویح کا مسئلہ ایسا ہے جس کے حق ہونے پر چاروں ائمہ مذاہب متفق ہیں ؛ جوا اور سود کی حرمت پر قرآن کی نص قطعی واضح الدلالت ہے۔ المآثر نے جب کسی پراحتساب کیا ، دلائل کی روشنی میں کیا ہے،کوشش کی گئی ہے کہ جذبات سے مغلوبیت نہ ہو، لیکن اپنی پاکی ٔ داماں کی حکایت پر اصرار نہیں ہے،بسم اﷲ اگر کوئی دلائل کی رہنمائی میں المآثر کی غلطی کو واضح کرے گا، تو اسے قبول کرنے میں تامل نہ ہوگا،مگر خیال یہ رہے کہ ادارہ المآثر کی اپنی الگ کوئی راہ نہیں ہے، اس نے اکابر علماء کی قدم بہ قدم پیروی کی ہے، حدیث میں حضرات محدثین کی اور فقہ میں علماء احناف کی، ان کی راہ سے انحراف نہیں ہے، اور جن کا احتساب کیا ہے، آپ دیکھیں گے کہ