ہو رہی ہوں ، تو بھی خاموش رہنا چاہئے؛ لیکن ظاہرہے کہ اگر اسے قاعدہ بنا لیا جائے، تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک بڑا حصہ معطل ہو کر رہ جائے گا، اس لیے ادارہ نے ان ناگواریوں کو دیکھا، سنا اور سہہ لیا، مگر اپنے طرزِ عمل میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ جو چیز غلط ہے، اس کی غلطی کو واضح کردینا، اختلاف نہیں ہے، نزاع نہیں ہے، اختلاف اور نزاع کی نسبت حق کی جانب نہیں ہو سکتی، ہاں اگر دلیل سے یہ بات واضح کردی جائے کہ جو کچھ کہا گیا ہے، وہی غلط ہے،تو البتہ اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جائے گی، لیکن صرف اتنا کہہ دینا کہ ادارہ جارحیت کے راستے پر جا رہا ہے، لوگوں سے نزاع کر رہا ہے، کافی نہیں ہے۔ المآثر نے جو آواز اٹھائی، اگر وہ درست ہے، تو اختلاف اور نزاع کی نسبت اس کی طرف نہیں ہو سکتی، جو لوگ غلطی کر رہے ہیں ، ان کی طرف ہوگی، حق اختلاف نہیں کرتا، وہ ایک سچا راستہ بتاتا ہے،جو لوگ اس سے منحرف ہوتے ہیں ، وہ اختلاف کے شکار ہوتے ہیں ، اﷲ کے پیغمروں نے قوم کی رسمِ عبادت اور رواجِ زندگی کے خلاف حق و صداقت کا راستہ دکھایا، تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ انھوں نے اپنی قوم سے اختلاف کیا، باہم پھوٹ ڈال دی، خاندانوں میں تفرقہ پیداکر دیا، گوکہ ان کی قومیں یہی راگ الاپتی رہیں ، مگر ان کا کہناغلط تھا، قوموں نے اختلاف کیا، پیغمبروں سے نزاع کیا، کیونکہ انھوں نے حق سے انحراف کیا۔ آج بھی یہی قاعدہ ہے، غلطی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، اگر وہ واقعۃً غلطی ہے، تو اس پر ٹوکنے والا نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہے، اس پر اختلاف کا الزام نہیں رکھا جا سکتا، یہ اگر نہ تسلیم کیا جائے تو حق و باطل کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا، اور ’’صلح کل‘‘ کا جذبہ رکھنے والے حضرات غیر شعوری طور پر اس غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: { لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْناَ مَنْسَکاً ھُمْ نَاسِکُوْہُ فَلاَ یُنٰزِعُنَّکَ فِیْ الاَمْرِ وَ ادْعُ اِلیٰ رَبِّکَ اِنَّکَ لَعَلیٰ ھُدیً مُسْتَقِیْمٍ} [سورۃ الحج: ۶۷] (ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریقۂ عبادت بنایا تھا، جس کے مطابق وہ عبادت کتی تھی تو یہ لوگ تم سے اس معاملہ میں نزاع نہ کریں ، اور تم اپنے رب کی طرف دعوت دیتے