گئی ہے، اس عرصہ میں غیر مقلدیت نے مختلف عنوانوں کو بالخصوص تین طلاق کے مسئلہ کو علم و تحقیق کی درسگاہ سے نکال کر عوامی اسٹیج پر اور اخباروں اچھال دیا تھا، جس سے نہ صرف مذاہب اربعہ (حنفیت، شافعیت، مالکیت اور حنبلیت) پر حرف آتا تھا، بلکہ خود اسلام کی شبیہ بگڑ رہی تھی، مجلہ المآثر نے اس موضوع پر خود حضرت محدث کبیر علیہ الرحمۃ کی گرانقدر تحریر شائع کر کے اس کا دفاع کیا۔
کچھ عرصہ سے مولانا قاضی مجاہد الاسلام کی سربراہی میں ایک تنظیم فقہ اکیڈمی نے فقہی سیمناروں کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے، بعض اعتبارات سے یہ سلسلہ مفید اور نتیجہ خیز محسوص ہورہا تھا، لیکن بھانپنے والوں نے شروع ہی میں بھانپ لیا تھا کہ علمی میدانوں میں یورپ سے درآمدکردہ یہ نیا طریقۂ عمل شاید آگے چل کر فتنوں کا باعث بن جائے، چنانچہ پانچویں فقہی سمینار میں ، جو اعظم گڈھ میں ہوا تھا، یہ اندیشہ کھل کر سامنے آ گیا، اس میں لائف انشورنس کے متعلق ایک ایسا فیصلہ کیا گیا، جو اسلام کی تعلیمات اور اس کی روح کے منافی تھا، اور اس کے لیے ایسا طریقۂ کار اختیار کیا گیا، جو خود سمینار کے دستور کے خلاف تھا۔ اس راہ سے اندیشہ تھا کہ مسلمانوں کے معاشرے میں جوا اور سود کی نجاست پھیل جائے گی۔ المآثر نے اس کا احتساب کیا، اور اس موضوع پر اکابر علماء کے مضامین مسلسل شائع کیے ، اس کا اثر یہ ہوا کہ فقہی سمینار کے مذکورہ فیصلہ کی بنیاد پر انشورنس کے ادارے جو تیزی کے ساتھ مسلمانوں کے معاشرے میں گھسنے لگے تھے، اور مسلمانوں میں یہ ناجائز وبا شدت سے پھیلنے لگی تھی، اس کے سامنے ایک مضبوط بند قائم ہو گیا، فللہِ الحمد۔
اس احتساب کے دائرے میں خود سمینار اور اس کے لیے مرتب کیے جانے سوالات بھی آئے، سمینار کی کاروائی میں جو نامناسب طرز عمل اختیار کیا جا رہا تھا، اس پر بھی ٹوکا گیا، بعض حضرات جو صلح کل کی طرف رجحان رکھتے ہیں ، انھیں المآثر کے اس طرز عمل سے گرانی ہوئی، انھوں نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، ان کے خیال میں مسلمانوں اور دین کی خدمت کے لیے جو بھی قدم اٹھایا جائے، اسے گوارا کرنا چاہئے، اس میں اگر کچھ غلطیاں