جن سے حضرت کی نگاہ کی وسعت اور گہرائی اور گیرائی کا اندازہ ہوتا ہے، ان کے کچھ نمونے مرتب کیے، یہ انتقادات ’’استدراکات علمیہ‘‘ اور ’’استدراکات محدث کبیرؒ‘‘ کے عنوان سے تقریبا چودہ قسطوں میں شائع کیے گئے، عالم عرب کے مشہور عالم شیخ ناصرالدین کی غلطیوں کو حضرت محدث اعظمیؒ نے چار اجزاء میں تحریر فرمایا، اس کی تلخیص چار قسطوں میں پیش کی گئی۔
خود حضرت کی خدمات و کمالات کا تعارف بھی متعدد حضرات کے قلم سے شائع کیا گیا، حضرت اقدس کی نایاب و نادر اور وقیع علمی تحریریں جو کبھی مجلات و جرائد میں شائع ہوئی تھیں ، انھیں از سر نو شائع کیا گیا، ان کی تعداد ۲۰؍ سے کم نہیں ہے، حضرت اقدس کے گراں قدر فتاویٰ پہلے مرتبہ شائع ہوئے، اسی طرح حضرت اقدس کے مواعظ جو گاہے گاہے آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے، انھیں ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے نقل کر کے ناظرین کے استفادے کے لیے پیش کیا گیا۔
وہ حضرات جو اخلاص و دیانت کے پیکر رہے، جن کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر تعمیر سیرت کی جا سکتی ہے، جن کے سوانحِ زندگی بعد والوں کے لیے چراغِ راہ ثابت ہو سکتے ہیں ، ان کے تذکرے لکھے گئے، دس سال میں ایسے تقریباً پندرہ سولہ حضرات پر مضامین مرتب کیے گئے۔
حضرت محدث کبیر علیہ الرحمۃ کی زندگی کا ایک نمایاں مجاہدانہ کارنامہ یہ رہا ہے کہ غلط افکار و نظریات نے جہاں سر اٹھایا ہے، اور مذہب اسلام پر ان کی وجہ سے دھبہ لگنے کا اندیشہ ہوا ہے، یا دھبہ لگا ہے، تو حضرت نے ان غلط نظریات کا متین علمی احتساب کیا ہے، اور حقائق کی روشنی میں غلط کاروں کی ہر غلطی کو واضح کردیا ہے، اور علم و تحقیق کے نام سے جو گمراہیاں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی، سب کا قلع قمع کردیا۔ مجلہ ’’المآثر‘‘ نے ابتداء ہی سے اپنے مشن میں یہ بات شامل رکھی ہے کہ کہیں سے کوئی غلطی، غلط نظریہ، غلط تحقیق اسلام کے قلعے میں دراندازی کرنا چاہے گی، تو اس پر بند لگانے کی جد و جہد کی جائے گی، چنانچہ دس سال کے اس عرصہ میں گاہے گاہے، حسب ضرورت یہ خدمت بھی انجام دی