پسندیدگی کا ظن غالب تھا، چنانچہ یہ ظن غالب سچا ثابت ہوا، لوگ نو آموز اور گمنام افراد کی اس جرأت پر چونکے تو ضرور! بہت سے حضرات حیرت میں پڑے کہ علمی صحافت کے پردے پر یہ نئی تصویریں دکھائی دے رہی ہیں ، لیکن محدث جلیل علیہ الرحمۃ کی برکت تھی کہ یہ نئی تصویریں بھی قبولیت پا گئیں ، مجلہ پسند کیا گیا، چوٹی کے اہلِ علم نے اس سے دلچسپی لی، اور دیکھتے ہی دیکھتے اقلیم علم میں اس نے اپنی شناخت بنا لی۔
ادارہ المآثر نے ابتدا میں اس مجلہ علمیہ کے سلسلے میں جو منصوبہ طے کیا تھا، اور سفر کی جو راہیں اور منزلیں طے کی تھیں ، کوشش یہی رہی کہ انھیں راستوں پر یہ علمی سفر طے ہوتا رہے، اور متعین منزلوں کو پا لینے کی جد و جہد جاری رہے۔
اس سلسلے میں پہلا منصوبہ تو یہ تھا کہ حضرت اقدس علیہ الرحمہ کے گرانقدر علمی کارناموں کا ذرا تفصیلی تعارف پیش کر دیا جائے، لوگ بلکہ بہت سے اہل علم حضرات بھی بس اتنا جانتے تھے کہ حضرت اس دور کے عظیم محدث، فن اسماء الرجال کے ماہر اور حدیث کے درجات و مراتب کے معتبر نقاد ہیں ، لیکن ان کے وہ کارنامے کیا ہیں ؟ان کی تفصیل کیا ہے؟ جس کی بنیاد پر قلوب میں منجانب اﷲ یہ بات جمی ہے، اس سے بہت کم لوگ واقف تھے۔ خود یہ راقم سطور، جس کے کاندھوں پر مجلہ کی ادارت تحریر کا بار ڈالا گیا، اس کا قدم بھی اجمال سے نکل کر تفصیل کے میدان میں نہیں آیا تھا، مجلہ کے آغاز کے وقت سے حضرت کی کتابوں کا از سر نو تفصیلی مطالعہ شروع کیا، تو علم و تحقیق اور نقد و نظر کی ایک وسیع جولانگاہ نگاہوں کے سامنے آئی، تلاش علم کا ایک نیا میدان ملا، قلم کو حضرت اقدس کی تحریروں کے سہارے چلنے کا راستہ ملا، چنانچہ یکے بعد دیگرے حضرت کے علمی و تحقیقی معارف کی ایک روشن اور دلآویز جلوہ گاہ یہ مجلہ بنا، جو کتابیں حضرت کی تحقیق و تعلیق سے پہلی مرتبہ مخطوطات کی الماریوں سے نکل کر مزین ہوئیں ، ان کے نوادرات بطور نمونے کے قارئین کے سامنے پیش کیے گئے؛ مسند حمیدی، کتاب الزہد و الرقائق، المطالب العالیہ، کشف الاستار، مصنف عبدالرزاق وغیرہ۔ ان کے علاوہ حضرت کے وہ انتقادات جو اکابر اہلِ علم کی کتابوں پرجستہ جستہ تحریر ہوئے ہیں ،