کہیں سود و زیاں کا معاملہ پڑتا ہے، تو کفر کی طاقتیں ، انھیں مسلمان کہہ کر، ان کے ساتھ وہی معاملہ کرتی ہیں ، جو مسلمانوں کے حق میں ان کے منصوبے میں داخل ہوتا ہے، متعدد فسادات میں کمزور ایمان والوں نے اپنی شناخت چھوڑی، کفر کی شناخت اختیار کی، مگر نتیجہ وہی رہا کہ سب کے ساتھ وہ بھی ہلاک کر دیے گئے، دنیا بھی گئی، آخرت بھی گئی!! {خَسِرَ الدُّنیا و الآخِـــرَۃَ و ذٰلِکَ ھُوَالْخُسْرانُ الْمُبِیْنُ}
دوسری راہ دنیاوی اعتبار سے بہت مشکل ہے، لوگوں کے طنز و طعن ہیں ، کوئی ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اپنے گھر میں بھی آدمی اجنبی بن جاتا ہے، وہ حال ہوجا تا ہے کہ بات کرے تو کوئی سننے کو تیار نہ ہو، رشتہ چاہے تو کوئی رشتہ کرنے پر آمادہ نہ ہو، دین پر عمل کرنے کا جذبہ،اسے اس کے ماحول سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے، اس سے سب خفا ہوتے ہیں ، اور وہ سب سے علیحدہ ہو جاتا ہے، یہ حالت انسان کے لیے بہت سنگین ہوتی ہے،بڑے مضبوط ارادے اوربلند حوصلہ کا مالک ہوتا ہے وہ آدمی،جو ان سب مشکلات کو برداشت کر کے خالص ایمان و اسلام پر باقی رہے، یہ شخص ایسا ہے، جیسے ہاتھ پر انگارہ رکھے ہوئے ہو: ؎
ہم حوادث میں رہے کوہ و بیاباں کی طرح
اور ہوں گے ترے سانچے میں جو ڈھل جاتے ہیں
مگر اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انھیں افراد کی وجہ سے دین کا تحفظ ہوتا ہے، فتنے رفع ہوتے ہیں ، اور آخرت میں تو ان کا وہ عالم ہوگا کہ سو سو شہیدوں کا ثواب حاصل کریں گے، اﷲ تعالیٰ کی خوشی اور رضا انھیں حاصل ہوگی، مولانا محمد علی جوہرؒ نے بہت خوب کہا ہے کہ: ؎
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
فتنوں کے اس دور میں ایسے ہی قلوب کامیاب ہیں ، انھیں تلاش کرکے ان کی پناہ میں رہنا چاہئے۔
(محرم تا ربیع الاول۱۴۲۳ھ؍مئی تاجولائی۲۰۰۲ء؍ ماہنامہ ضیاء الاسلام جولائی ۲۰۰۴ء )