اور دلوں میں جاگزیں ہو گیا، رسول اﷲ انے ارشاد فرمایا کہ پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ مذہب دوبارہ اجنبی بن جائے گا۔ اسلام کے خلاف ایک ایسا ماحول برپا اور ایک ایسی تہذیب مسلط ہو جائے گی کہ اس ماحول میں اسلام پر عمل کرنے والا محض اجنبی بن کر رہ جائے گا۔ اب یہاں اہل اسلام کے سامنے دو راہیں ہیں ، ایک یہ کہ اپنی اجنبیت سے گھبرا کر، اس سے وحشت زدہ ہو کر اپنی مخصوص شناخت اور اپنی خاص وضع کو خیر باد کہہ کر عام ماحول و معاشرہ میں گھل مل جائیں ، اسلام کے آثار و اعمال کو اپنے اوپر سے کھرچ کر پھینک دیں ، تاکہ دیکھنے والا، برتنے والا جان ہی نہ سکے کہ یہ بھی مسلمان ہیں ۔
دوسری راہ یہ ہے کہ اسلام کے تقاضوں پر، اس کی تعلیمات پر، اس کی شناخت اوروضع پر باصرار ڈٹ جائیں ، اور اس سلسلے میں کسی دباؤ کی پرواہ نہ کریں ، دنیا مخالف سمت دوڑ رہی ہے، مگر یہ اپنی سمت جارہے ہیں ، دیکھنے والے دیوانہ اور سنکی کہہ رہے ہیں ، ساری خلقت تو اُدھر جارہی ہے، تم ادھر کہاں جا رہے ہو؟ یہ طعنے سنتے رہیں ، تحمل کرتے رہیں ، الجھنے سے گریزکرتے رہیں ، مگر اپنی راہ پر لگے ر ہیں ۔
اس آخری دور میں ،اور اجنبیت کے اس ماحول میں یہ دو راہیں ہیں ۔ پہلی راہ دنیاوی اعتبار سے آسان ہے، اس راہ میں آدمی خود کو چلتی بھیڑ میں گم کردیتا ہے، اور دنیا کے اعتبار سے اس بھیڑ کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اس میں یہ بھی حصہ دار بنتا ہے، اس میں بظاہر دنیا کا فائدہ ہے، زندگی کی سہولت ہے، جہاں جائے گا، کہیں اجنبیت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا،لیکن اس سہولت کے لیے ، اس کو ایک بہت بڑی قربانی دینی پڑتی ہے، اور وہ بھی ناروا، وہ قربانی آخرت کی قربانی ہوتی ہے، جس طریق پر اسلام نے چلنے کی تلقین کی ہے، جب اسے چھوڑا تو آخرت کی راہ چھوڑی، جنت کی راہ چھوڑی،، ایمان میں اضمحلال پیدا ہوا، عبادات میں زوال آیا، طاعات سے برکنار ہوا، کفر والحاد کی موجودہ طوفانی ہوا میں بھی خطرناک راہ اختیار کرنے والے زیادہ ہیں ، دنیا مقصود ومعہود بنی ہوئی ہے، اس راہ میں آخرت کی تباہی تو ہے ہی، مسلمانوں کی دنیا بھی کچھ زیادہ بامراد نظر نہیں آتی، کیونکہ جب