برائیوں کی طرف جھکاؤ زیادہ ہو جاتا ہے، اصلاحِ حال کے بجائے خرابی کی صورت پھیل جاتی ہے، ایک فتنہ باہر موج مار رہا ہے اور ایک فتنہ قلوب میں گھسا ہوا ہے، قلوب کا فتنہ یہ ہے کہ اس میں خیر کی صلاحیت نہ رہے، اگر اس کے سامنے کوئی خیر کی بات لائی بھی جاتی ہے، تو شر و فساد کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اس قلب کی مثال الٹے پیالہ جیسی ہو جاتی ہے، جس میں کوئی خیر کی بات نہ ٹھہرتی ہے اور نہ جمتی، بس اس کی خواہش نفس کی وجہ سے جو چیز چمٹ جاتی ہے، وہی رہتی ہے اور اس کے مناسب کوئی چیز مل جاتی ہے، تو وہ بھی چمٹ جاتی ہے۔
یہ دونوں طرح کے فتنے اس دور میں موجیں مار رہے ہیں ، معاشرہ بھی فاسد ہے، اور قلوب بھی فاسد ہیں ، قلب کا صلاح یہ ہے کہ وہ ان فتنوں کو رد کردے، ان کا کوئی اثر قبول نہ کرے، وہ سنگ مرمر کی طرح سخت مضبوط اور چکنا ہو جائے کہ برائیاں اس سے ٹکرائیں تو، مگر اچٹ کر ناکام واپس ہو جائیں ، قلب میں اگر اتنی صلاحیت پیدا ہو جائے، تو اسے کوئی فتنہ ضرر نہیں پہنچا سکتا۔
ایسے قلوب ہر زمانے میں کم رہے ہیں ، اور ہمارے دور میں تو بہت کم ہیں ، لیکن اﷲ کی زمین خالی نہیں ہے، اچھے لوگ اور اچھے قلوب مل جاتے ہیں ، گو مشکل سے ملتے ہیں اور کم ملتے ہیں ، یہ قلوب فتنوں سے محفوظ رہتے ہیں ، اورفتنوں سے پناہ انھیں حضرات کے زیر سایہ مل سکتی ہے۔ رسول اﷲ ا کا ارشاد ہے: بَدَأَ الإسلامُ غریباً و سَیعودُ کما بَدَأَ غَریباً فَطُوبیٰ لِلْغُرَبائِ (مسلم شریف) اسلام کا جب آغاز ہوا تھا تو یہ لوگوں کے درمیان اجنبی تھا، یعنی لوگوں کا ماحول و معاشرہ،ان کے احوال وکوائف بالکل جداگانہ تھے، اسی ماحول میں چند لوگوں نے اسلام قبول کیا ، اس کے احکام و تعلیمات کو اپنی زندگی کا شعار بنایا، تو یہ لوگ سارے ماحول سے کٹے ہوئے اجنبی سے محسوس ہوئے، وہ خود اپنے کو اس ماحول میں اجنبی سمجھ رہے تھے، اور دنیا والے بھی انھیں اجنبیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، پھر آہستہ آہستہ اسلام کا حلقہ وسیع ہوتا گیا، لوگوں میں اس کا تعارف بڑھتا گیا، یہاں تک کہ لوگ مانوس ہوگئے، اجنبیت دور ہو گئی، اب یہ ایک معروف ومسلم حقیقت بن کر لوگوں کی نگاہوں