اندر جذب ہوتے ہیں ، اور دل کے اندر سے اٹھتے ہیں اور باہر پھیلتے جاتے ہیں ۔
فتنوں کے عموم و شیوع کا یہ حال ہے کہ ایک بات کہیں سے اٹھتی ہے، اور ذرائع ابلاغ کی قوت و وسعت اس کو چند لمحوں میں ساری دنیا میں پہنچا دیتی ہے، اور جگہ جگہ فتنے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، مثلاً:
ڈیڑھ دو سال پہلے امریکہ کی ایک بلند و بالاعمارت پر حملہ ہوا، کس نے حملہ کیا، اس بات کی آج تک تحقیق نہ ہو سکی، ادھر یہ حملہ ہو رہا ہے، عمارت تباہ ہو رہی ہے، اور ساری دنیا کو یہ بات معلوم ہوگئی، سب تھرا گئے کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے؟ سب کی ٹکٹکی ادھر ہی لگ گئی، اور نزلہ گرا ایک غریب، اور بے کس ملک پر، کیونکہ وہ مسلمان تھا، اور مسلمان رہنا چاہتا تھا، مہینوں ساری دنیا کی نگاہیں اسی پر لگی رہیں ، قلوب الٹتے پلٹتے رہے، لوگ شور مچاتے رہے کہ غلط ہو رہا ہے، مگر سمندر بن کر جو فتنہ موج مار رہا ہو، وہاں کوئی آواز کب سنائی دے سکتی ہے؟ اس فتنہ کا اثر ساری دنیا پر پڑا، کتنے لوگوں کے ایمان ڈگمگائے، خدا و رسول پر جنکو یقین تھا، وہ شک میں مبتلا ہو نے لگے، مایوسی و شکستگی کی بدلیاں فضائے قلوب پر چھا گئیں ، لوگ ایسا محسوس کرنے لگے کہ افغانستان اور طالبان نہیں ، خود اسلام ختم ہو جائے گا، یہ فتنہ تھمتا تو کیا؟ فتنہ پرور ہی ذرا تھک گیا، تو دوسرے چند ممالک کو دھمکیاں دے کر ہراساں کرنے لگا، اور اپنے سدھائے ہوئے کتے اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک دی، اس نے فلسطینیوں پر ہلہ بول دیا، اور ظلم و درندگی کی وہ خونچکاں داستان مرتب کی کہ اگلے پچھلے سب ظالم شرما جائیں ۔
اُدھر یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ ہندوستان میں بابری مسجد کو عنوان بنا کر گودھرا میں فتنہ کی ایک چنگاری پھینکی گئی، اور وہ آن واحد میں شعلہ بن کر احمد آباد اور اس کے مضافات میں مسلم آبادیوں کو تہس نہس کر گئی۔ اﷲ جانے اس کی چنگاریاں کہاں کہاں اڑ کر پہنچی ہیں ، ان مسلسل فتنوں کی وجہ سے قلوب کی حالت بگڑ گئی ہے، ظلم و ستم کی ہر چیرہ دستی کے بعد یہ گمان ہوتا ہے کہ اب قلوب اﷲ کی طرف پلٹیں گے، اب لوگ اﷲ کو راضی کرنے کی تگ و دو کریں گے، مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ معاملہ بر عکس ہورہا ہے، قلوب میں اﷲ سے بغاوت کا جذبہ کچھ اور بڑھ جاتا ہے،