دوسرے کے پیچھے اس طرح سر اٹھاتی ہیں ، جیسے ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں ہے، اسی طرح یہ فتنے یکے بعد دیگرے آئیں گے، باہم گتھم گتھا ہوں گے، لڑائی جھگڑے کی کثرت ہوگی، کوئی کسی کی رعایت کو تیار نہ ہوگا، پاس و لحاظ اٹھ جائے گا، لوگ جانوروں سے بدتر ہو جائیں گے، ان فتنوں کی کیفیت کیا ہوگی، فرماتے ہیں کہ تُعْرَضُ الفِتَنُ عَلَی القُلوبِ کا لحَصِیرِ عُوداً عُوداً جس طرح چٹائی بنی جاتی ہے، تو ایک تنکے کو دوسرے تنکے سے جوڑتے چلے جاتے ہیں ، اسی طرح قلوب فتنوں کی آماجگاہ بن جائیں گے، ایک فتنہ آئے گا اور معاً اس کے بعد دوسرا فتنہ آئے گا، اگر قلب ہر فتنہ سے متاثر ہوتا گیا، اور اس میں ملوث ہوتا رہا تو وہ سیاہ ہوتا رہے گا، اور نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ بالکل کالا ہو کر رہ جائے گا، جیسے راکھ میں اٹا ہوا ہو اور اوندھے پیالے کی طرح ہو جائے گا کہ اس میں نہ علم ٹھہرے گا، نہ معرفت۔ خیر کی ہر بات اس سے باہر ٹپک جائے گی، پھر نہ اسے نیکی اور خیر کی کوئی پہچان ہوگی، نہ اس سے مانوس ہوگا، اور نہ برائی سے اسے کوئی وحشت اور تنفر باقی رہے گا، یعنی بھلائی سے دور اور برائی میں ڈوبا ہوا ہوگا، وہ بس اسی بات کو قبول کرے گا، جو اس کی خواہش نفس کے مطابق ہو۔
اور اگر قلب ایسا ہے کہ اس نے ان فتنوں کو رد کر دیا، ان سے نہ متاثر ہوا، اورنہ ان میں ملوث ہوا، بلکہ علم و معرفت کی روشنی میں اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے اطاعت الہی میں سرگرم رہا، تو وہ قلب ایسا ہوگا، جیسے سنگ مرمر جو چکنا بھی ہوتا ہے، اور سفید بھی کہ اس پر کوئی گندگی اثر نہیں کرتی، اسی طرح یہ دل صاف اور روشن ہو تا ہے، اور پتھر کی طرح مضبوط ہوتا ہے، اس پر کوئی فتنہ اثر نہیں کر سکے گا۔
اس حدیث پر غور کریں ، اور جن حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں ، ان پر غور کریں ، تو یہ حدیث رسول اﷲ اکے معجزات میں معلوم ہوتی ہے۔ آج ہمارے سامنے واقعی وہی منظر ہے کہ فتنہ موجیں مار رہا ہے، اس پوری کائنات انسانی میں ہر طرف جو چیز بکھری ہوئی پڑی ہے، بلکہ سب پر گھیرا ڈالے ہوئے ہے، وہ فتنہ ہی ہے، گھر گھر بلکہ ہرہر فرد کو یہ فتنہ عام ہے، ایک فتنہ تھمتا نہیں کہ دوسرا فتنہ سامنے آجاتاہے، یہ فتنے باہر سے اٹھتے ہیں اور دلوں کے