میں سیاہ نقطے پڑ جاتے ہیں ، اور جس قلب نے انھیں اجنبی سمجھ کر جھٹک دیا، اس میں ایک روشن نقطہ بن جاتا ہے، اس طرح ایک قلب تو بالکل سنگ مرمر کی طرح سفید اور روشن ہوجاتا ہے، جس میں رہتی دنیا تک کوئی فتنہ اثر نہیں کرسکتا، اور دوسرا قلب کالا، راکھ میں اٹا ہوا الٹے پیالے کی طرح ہو جاتا ہے، جو نہ معروف سے مانوس ہوتا، اور نہ منکر سے اسے وحشت ہوتی، وہ صرف اسی چیز کو جانتا ہے، جسے اس کی نفسانیت نے جذب کیا ہے‘‘۔
حدیث میں بعض اجزاء اور بھی ہیں ، لیکن ہم نے اپنے موضوع سے متعلق جو حصہ تھا، اسے نقل کیا ہے، یہاں حدیث کے چند الفاظ کی وضاحت ضروری ہے، تاکہ قارئین کے سامنے وہ بات واضح رہے، جو رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمائی ہے۔
اس میں ایک لفظ ’’فتنہ ‘‘ ہے، اس کی جمع ’’فتن‘‘ ہے، اردو محاورہ میں فتنہ کا معنی لڑائی جھگڑا اور اختلاف و انتشار ہے، لیکن عربی میں ’’فتنہ‘‘ کا معنیٰ امتحان اور آزمائش کے ہیں ، خواہ وہ امتحان اپنے نتیجہ کے اعتبار سے خیر ہو، یا شر، لیکن زیادہ تر اس کا استعمال اس آزمائش اور امتحان کے لیے ہوتا ہے، جس سے شر کا ظہور ہوتا ہو، چنانچہ فتنہ کا اطلاق کفر پر، دور از کار تاویلات پر، ذلت و رسوائی پر، مصیبت اور عذاب پر، لڑائی جھگڑے پر، اچھائی سے برائی کی طرف پلٹنے پر اور کسی چیز کی محبت میں غلو پر ہوتا ہے۔
اہل و مال کا فتنہ یہ ہے کہ ان کی محبت میں پڑ کر آدمی دینی احکام میں کوتاہی کرنے لگتا ہے، یہی حال پڑوس کا بھی ہوتا ہے، کبھی پڑوس کی محبت میں اور کبھی اس کی عداوت میں آدمی حد سے تجاوز کر جاتا ہے، اور غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، ان غلطیوں کا کفارہ روزمرہ کی عبادات ہو جاتی ہیں ، یہ فتنے تو ہمہ دم آدمی کے ساتھ ہیں ، ان کی اصلاح و مغفرت کا سامان بھی منجانب اﷲ مہیا ہیں ، اگر آدمی نماز روزے اور عبادات کا پابند ہے، تو یہ روزمرہ کی خطائیں ، خود بخود بجھتی رہتی ہیں ۔
لیکن ایک فتنہ وہ ہے، جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ تموجُ موجَ البحرِ، سمندر کی طرح موجیں مارتا ہوا آئے گا، یعنی جس طرح سمندر کی موجیں باہم ٹکراتی ہیں ، ایک