کے لئے تو دل سے متوجہ ہونا پڑے گا۔ اس کے تقاضوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ ہر چیز کو اس کے خزانے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اﷲ کا ذکر بھی وہیں سے حاصل ہوگا، جہاں یہ خزانہ موجود ہوگا۔ ذکر کا خزانہ ذاکرین کے قلوب ہیں جو اﷲ کے ذکر سے لبریز ہیں ۔ جن میں ہر خیال اور ہر ارادہ اﷲ کی یاد کے تابع ہوکر آتا ہے، ان کی صحبت میں غفلت کے بیماروں کا علاج ہوتا ہے۔ مادیت کے اس انہماک کے دور میں ایسے لوگ کمیاب ہوگئے ہیں ،تاہم نایاب نہیں ہیں ۔ آپ تلاش کرتے رہئے ، دل میں سچائی ہوگی تو اﷲ تعالی کسی خزانے تک رسائی آسان فرمادیں گے ، ملاحظہ ہو حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ فارس میں ایک آگ کے پجاری کے گھر پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی عقیدے اور عبادت پر جوان ہوتے ہیں ۔ مگر دل میں تڑپ تھی، ہدایت کی، خدا طلبی کی، کیسے پھرتے پھراتے عین اس وقت مدینہ طیبہ پہونچائے گئے، جب کہ وہاں نبی کریم اکی آمد آمد کا غلغلہ تھا ۔ اور بالآخر وہ آستانۂ نبوت پر حاضر ہو کر شرف صحابیت سے اور بے کراں بشارتوں سے نوازے گئے۔ آج بھی اگر کوئی صدق دل کے ساتھ تلاش کرے، تو اسے ذکر کا بھی خزانہ ملے گا، اور سکون قلب اور اطمینان روح کا بھی مرکز ملے گا، مگر مشکل یہ ہے کہ آدمی کو مادی اسباب سے اتنی محبت ہے، اور مستقبل کے اتنے اندیشے ہیں ، اور انھیں مادی اسباب سے مستقبل کے بننے اور بگڑنے کا ایسا عقیدہ رچا اور بسا ہوا ہے کہ گھبراتا تو ضرور ہے، مگر نکلنے کی ہمت نہیں پڑتی، ہمتوں کی پستی کا یہ عالم ہے کہ مال وزر کا نقصان تو درکنار، اس کی کمی کے اندیشے سے انسان کا دل لرزتا رہتا ہے۔ اگر اسے دنیا اور اسباب دنیا کا تحفظ دیدیا جائے، تو ذاکرین کی جماعت میں شامل ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس کے تحفظ کے سلسلے میں ذرا بھی شک ہوگا، تو قدم نہیں اٹھائے گا۔ حالانکہ اس دربار کا رنگ یہ ہے کہ :
نیم جاں بستاند وصد جاں دہد آنچہ درو ہمت نیاید آں دہد
آدھی جان اگر وہ لیتے ہیں ، تو سیکڑوں جان عطا فرماتے ہیں ۔ جو کچھ تمھارے وہم وخیال میں نہیں ہوتا وہ بھی بخشتے ہیں ۔