ہے۔ اور اس زمانے میں یہ دونوں کمزوری کا شکار ہیں ، کب ہارٹ فیل ہو جائے، کب دماغ پر فالج گر جائے، کچھ ٹھکانا نہیں ۔ جو کچھ نہیں حاصل ہوا یا جو کچھ کھو دیا، اس پر صدمہ ورنج، اور آئندہ کیا ہوگا اس کی تشویش اور اندیشہ، بس انھیں دونوں تکلیفوں میں انسان الٹتا پلٹتا رہتا ہے، یہی’’ ٹینشن‘‘ ہے، جو انسان کو اور اس کی زندگی کو کھائے جارہا ہے۔
اور جو آدمی اﷲسے، اﷲ کے ذکر سے، اﷲ کی اطاعت سے وابستہ ہے۔ اسے کوئی’’ ٹینشن‘‘ نہیں ہے۔ نہ اسے ماضی پر حسرت ہے، نہ مستقبل کا اندیشہ ہے، نہ اسے حال کی پریشانی ہے۔ اس کی نگاہ ماضی وحال ومستقبل سے بلند ہوتی ہے۔ اسے اﷲ سے وابستگی ہوتی ہے۔ جو زمان ومکان پر حکمراں ہے، اس کی قدرت لا محدود ہے، پس جو کچھ ہوتا ہے اسی کے حوالے کردیتا ہے۔ اس کی شہادت قرآن کریم میں خود اﷲ ہی نے دی ہے۔فرماتے ہیں {اَلاَ اِنَّ اَولیائَ اﷲِ لاَ خَوفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنونَ۔ الَّذِینَ آمَنُوْا وَکانُوْا یَتَّقُوْنَ۔ لَھُمُ الْبُشْریٰ فِیْ الْحَیاَۃِ الدُّنْیا وَفِی الآخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اﷲِ ذٰلِکَ ھُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْم} (سورہ یو نس ۶۲ تا ۶۴)سنو! بلا شبہ جو اﷲ کے ولی ہیں ان پر نہ کوئی اندیشہ ہے، اور نہ انھیں رنج ہوتاہے، جو ایمان لائے اور جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے دنیا وآخرت دونوں زندگیوں میں بشارت ہی بشارت ہے، اﷲ کی باتیں بدل نہیں سکتیں ، یہی بڑی کامیابی ہے۔
بیشک خدا کی بات بدل نہیں سکتی ہے۔ اس نے جہاں سکون واطمینان رکھا ہے، وہیں ملے گا، دوسری جگہ اس کی تلاش فضول ہے۔انسان مادی اسباب و وسائل میں مرنا کھپنا چھوڑ دے، وسائل کو بس انھیں کے درجے میں حاصل کرے اور برتے، اور زندگی کا محور ومرکز اور نصب العین رب اسباب کو بنائے، تو انسانی زندگی کی تمام چولیں ٹھیک ٹھیک اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ جائیں گی۔ ورنہ انسان ایک پہلو کو ابھارے گا تو دوسرا دبے گا۔
لیکن یہ بات جو بڑی کامیابی ہے، بغیر قصد وارادہ کے حاصل ہونے کی نہیں ہے، اور نہ یہ ہوگا کہ آدمی اس کی مخالف سمت دوڑتا رہے، اور یہ کامیابی اسے لپٹ جائے۔ اس