اﷲ کے ذکر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس کے بعد ایک اصولی بات جوکہ لازوال ہے، بتائی کہ دلوں کا اطمینان تو اﷲ کی یاد ہی میں ہے۔
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے، جسے مادیت نے کھو دیا ہے۔ پس اسے راستہ نہیں مل رہا ہے، آدمی اسباب پر اسباب ایجاد کیے چلا جارہا ہے، مگر اپنے پیدا کرنے والے کو بھول کر، اس کی نافرمانی کرکے، اس کے احکام سے روگردانی کرکے، نتیجہ یہ ہے کہ اسباب راحت سب موجود ہیں ۔ مگر راحت نام کی ، اطمینان نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یاد وہ ہے، جو انسان کے پورے وجود پر چھا جائے۔ زمان ومکان کے کسی مرحلے میں اس پر فراموشی نہ طاری ہو، زندگی کا ہر عمل اسی یاد کے زیر اثر ہو، زبان اس کے ذکر سے تروتازہ ہو، قلب اس کے دھیان سے معمور ہو، ہر کام جذبۂ اطاعت کے نور سے منور ہو۔ غرض یہ کہ آدمی کا مرنا جینا سب اسی سے وابستہ ہو۔ تب وہ حال ہوتا ہے کہ اسباب موجود ہوں یا معدوم ، ذرائع ووسائل پاس ہوں یا دور، جب وہ خالق اسباب کے قریب اپنے کو دیکھتا ہے تو اطمینان وسکون کی پھوار اس پر مسلسل پڑتی رہتی ہے، پھر تو وہ کیفیت ہوتی ہے، جس کو جگر مرادآبادی نے اپنے شاعرانہ انداز میں کہا ہے، مگر وہ ایک حقیقت ہے محض شاعری نہیں ہے، کہتے ہیں
میرا کمال عشق بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
آج انسانیت دکھی ہے، کیونکہ اس کا دل اپنے مرکز سے منحرف ہے، جہاں اطمینان ہے وہاں وہ جانے سے گھبراتی ہے۔ اور جہاں اضطراب ہے، دکھ ہے پریشانی ہے، وہاں کے لیے وہ بھاگتی پھرتی ہے۔ اسباب کی دنیا ایک اندھیری دنیا ہے، اس کا ماضی بھی اندھیرا ہے، اور مستقبل تو بالکل ہی معدوم ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے، اور ہر شخص کو اس کا تجربہ ہے کہ آدمی ایک مقصد کے لیے اسباب فراہم کرتا ہے، اسباب مہیا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ ان کو دیکھ کر آدمی یقین کرلیتا ہے، کہ اب مقصد ہاتھ میں آیا ہی ہے کہ اچانک نتیجہ اس کے برخلاف نکلتا ہے اور انسان مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے آج کا انسان ہر دم ایک اضطراب میں رہتا ہے، ذہنی ٹینشن اتنا بڑھا ہوا ہے کہ کسی آن اطمینان نہیں ۔ اس ٹینشن کا حملہ دل پر ہوتا ہے، دماغ پر ہوتا