آمَنُوْا وَ تَطْمنُّ قُلوْبُھُم بِذِکْرِ اﷲِ اَلاَ بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلوْبُ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّا لِحَاتِ طُوْبیٰ لَھُمْ وَ حُسْنُ مَآب} یہ انکارکرنے والے کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی، تم کہہ دو کہ اﷲ جس کو چاہتا ہے راہ سے ہٹاتا ہے، اور جو اس کی طرف دل سے متوجہ ہوتا ہے اسے اپنی راہ دکھاتا ہے۔ وہ لوگ جو ایمان لائے، اور ان کے قلوب اﷲ کی یاد سے اطمینان پاتے ہیں ، خوب سن لو کہ اﷲ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا ان کے لیے بشارت ہے اور بہترین ٹھکانا ہے۔
ان آیات میں اس سوال کا جواب موجود ہے۔ مادہ نے دنیا والوں کو باور کرایا ہے کہ انسان کی زندگی لے دے کر بس اتنی ہی ہے، جتنے دن اس دنیا میں وہ جی لیتا ہے، ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد سے اس کی زندگی کے دن شروع ہوتے ہیں ، اور آخری سانس پر اس کی زندگی کا اختتام ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے، انسان کا قلب اس کا انکار کرتا ہے۔ انسان اسی غلط نظریہ کی بنیاد پر اس زندگی کو بنانے اور سنوارنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ناکام رہتا ہے۔ پیغمبروں نے اس غلط نظریہ کی تردید کی۔ انسانیت کو انھوں نے خاک کی پستی سے اٹھا کر رب کائنات کے حضور میں پہونچانا چاہا، اور بتایا کہ اس زندگی کے کاموں کی مکافات اور اس کی جزا کے لیے ایک دوسری دنیا ہے، وہ آخرت ہے۔ لیکن چونکہ وہ آنکھوں کے سامنے نہیں ہے، اس لیے انسان تردد میں مبتلا رہتا ہے، وہ پیغمبروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اگر واقعی آپ اﷲ کے رسول ہیں ، اور آخرت بر حق ہے، اور آپ کی بتائی ہوئی راہ حق ہے تو کوئی نشانی ایسی دکھائیے کہ ہم یقین کرنے پر مجبور ہوجائیں ، ارشاد ہوا کہ نشانیاں تو بہت ہیں ، مگر اﷲ کی توفیق اسی کو ملتی ہے جو دل سے اﷲ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور جو کوئی انحراف کرتا ہے، تو اﷲ تعالی جسے چاہتے ہیں گمراہی میں چھوڑ دیتے ہیں ، یعنی ہدایت وضلالت کا سرا اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ البتہ اگر کوئی اﷲ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو اسے اﷲ تعالی محروم نہیں کرتے، پھر ارشاد فرمایا کہ یہ متوجہ ہونے والے وہ ہیں ، جو ایمان لائے، اور ان کے قلوب کو