آکر دم توڑ دیتی ہیں ، سڑک پر ہمہ دم خطرہ ہے۔ پھر کثیف اور امراض کو پیدا کرنے والے دھوئیں اور گیس نے وہ قیامت ڈھا رکھی ہے، کہ آدمی اپنا گھر بند کر لے تب بھی چھٹی نہیں ہے، ہر نئی ایجاد نیا خطرہ لاتی ہے، ہر علاج نئی بیماری کو جنم دیتا ہے، اور موت کا ہنگامہ ہمہ وقت گرم ہی رہتا ہے، سڑکوں پر سے لاشیں اٹھائی جارہی ہیں ، ریل کی پٹریوں پر سے کٹے پھٹے مردہ جسم اٹھائے جارہے ہیں ، شفا خانوں سے ماتم کرتے ہوئے لوگ نکلتے ہیں ، اور جنگوں میں ، خانہ جنگیوں میں اور فسادات میں تو موت کا وہ رقص ہے کہ ہر تماشائی بسمل بنا ہوا ہے، گھر سے باہر نکلئے تو اطمئنان نہیں ، گھر کے اندر رہئے تو راحت نہیں ، اضطراب صد اضطراب ہے، بے چینی ہی بے چینی۔
آخر اسباب کے یہ الٹے نتائج کیوں نکل رہے ہیں ۔ ہر انسان دوسرے انسان سے پوچھتا ہے، میں آسائش کا یہ سامان لایا، تو میرا بچہ اندھا کیوں ہو گیا؟ میرا بیٹا دولت کما کر لایا تو اس کے دوست نے اس کو گولی کیوں ماردی؟ میں نے اپنی بیوی کے علاج میں پیسہ پانی کی طرح بہایا تو اسے کینسر کیوں ہوگیا؟ میں نے اپنا مکان بنایا تو میرے پڑوسی نے مجھ پر مقدمہ کیوں قائم کر دیا؟ ہر طرف سوالات ہیں ۔ لوگ جواب بھی دے رہے ہیں ، مگر کوئی جواب تسلی نہیں بخشتا، کسی سے گتھی نہیں سلجھتی، ایک سوال کے بعد دوسرا سوال سر ابھار تا ہے، آخر کیوں ؟ آخر کیوں ؟
انسان جواب دیتا ہے ، اپنی اسی عقل سے جواب دیتا ہے، جو مادیت کی سنگین خول میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس سوال کا جواب انسان نہیں دے سکتا ہے، وہ دے سکتا ہے جو انسان کا بھی خالق ہے، اور ساری کائنات کا بھی خالق ہے۔ اس سے پوچھئے، وہ بیماری بھی بتائے گا، دوا بھی بتائے گا، اور دوا میں اثر بھی پیدا کرے گا۔
قرآن کریم کا تیرہواں پارہ کھولئے، اس میں ایک سورہ ہے سورۂ رعد، اس کے چوتھے رکوع کی تلاوت کیجئے، اﷲ تعالی فرماتے ہیں :{وَ یَقولُ الَّذینَ کَفَروا لَوْ لاَ اُنْزِلَ عَلیہِ آیَۃٌ مِنْ رَّبِّہٖ قُلْ اِنَّ اﷲَ یُضِلُّ مَنْ یَّشائُ وَیَھْدِیْ اِلَیہِ مَنْ اَنَابَ اَلَّذِیْنَ