رسالوں میں شائع ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی غیر مسلم کو مسلمان بنانا اتنا اہم نہیں ہے ، جتنا ایک سلفی کو اہل حدیث بنانااہم ہے، اور فقہ کی کتابیں اتنی نجس ہیں کہ اگر ان پر پیشا ب کردیا جائے تو وہ پیشاب مزید نجس ہوجائے گا ۔ آپ بتائیے ، اس ذہنیت کے لوگ کسی نرم کلامی کے مستحق ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ مخالفین اسلام کے آلۂ کار ہیں ، انھیں کی گندی ذہنیت مخالفین کو وہ ہتھیار فراہم کرتی ہے، جن سے وہ مذہب اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔
حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی بھی ان کی شوریدہ سری کے ہاتھوں بے بسی محسوس کررہے ہیں ، ان کا ایک طویل مضمون’’ أَللّٰھُمَّ إِھْدِنَا الْصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ‘‘ کے عنوان سے ترجمان دار العلوم ،شمارہ جون ، جولائی ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا ہے۔ لب ولہجہ اس میں بھی ان کا وہی ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے ، لیکن ان کا اندرونی درد وکرب اتنا بڑھاہوا، اور اس کا اظہار اس میں اتنی شدت سے ہے کہ لہجہ کی یہ نرمی، اسلوب کا یہ وقار سراسر تکلف معلوم ہوتا ہے۔ اب وہ بھی فریاد کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پارہے ہیں ، پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے، اس مضمون میں انھوں نے غیر مقلدوں کی طرف سے شائع ہونے والی زہریلی کتاب ’’ الدیوبندیۃ‘‘ کا احتساب کیا ہے ، گومولانا اپنے مضمون کو احتساب کہنے پر شایدراضی نہ ہوں ، اور اسے افہام وتفہیم ہی کہنا پسند کریں ، تاہم وہ نقد واحتساب ہی ہے، بلکہ ظلم کے خلاف ایک دل جلی فریاد ہے ، اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے، اس سے میری بات کی تصدیق ہوجائے گی، کتاب کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ کتاب کیا ہے ؟ ایک عبرت گاہ ہے، ایک مرقع ہمارے اخلاق وکردار کے فساد وانحطاط کا، ایک تماشہ گروہی بغض وعناد اور جذبات رقابت کا۔‘‘( ص:۱۸)
مولانا نے اس عبارت میں ہمارے کا لفظ لکھ کر اپنی بات کی شدت کو کم کردیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر یہ لفظ محض تکلف ہے ، آپ ابتداء سے اب تک کی تاریخ ملاحظہ فرمالیجئے ۔ غیرمقلدین مسلسل نشتر زنی کرتے ہیں ، تب علماء دیوبند میں سے کوئی ایک جواب ترکی بہ ترکی کے لئے اٹھتا ہے ،اور اپنے ہی لوگوں کی مسلسل روک تھام سے گھبرا اٹھتا