سرگرم عمل ہے ، اب ایسی صورت میں بھی ان کے ساتھ نرم لب ولہجہ اختیار کریں تو ان کے طغیان میں اور اضافہ ہوگا۔
ہمارے ایک بزرگ حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی دامت برکاتہم جو حضرت مولانا محمد منطور نعمانی علیہ الرحمہ کے عالی مرتبہ فرزند ہیں ، اپنے والد گرامی کی حیات میں ایک عرصہ تک ماہنامہ الفرقان کے مدیر رہے ہیں ، پھر علاج کے سلسلے میں لندن تشریف لے گئے ، اور اب وہاں کے شہری ہیں ۔ مولانا کا قلم ابتداء ہی سے نہایت سنجیدہ اور باوقار رہا ہے ،الفرقان کی ادارت کے دور میں بھی ان کا شائستہ لب ولہجہ اور باوقاراُسلوب بہت ہی دل آویز اور مؤثر ہوتا تھا ۔ میری طالب علمی کا دور تھا، اور میں بہت پابندی سے ان کی تحریریں پڑھتا تھا ، ادھر جب سے وہ لندن میں مقیم ہیں ،اسلام دشمن تمام طاقتیں اور ان کی ہر قسم کی سازشیں ، جو اسلام کے حق میں مسلسل ہوتی رہتی ہیں ، ان کے سامنے بے نقاب ہیں ، باہر کے ان دشمنوں کے مخالفانہ عزائم اور اقدامات کی وجہ سے اندرونی فتنوں اور فتنہ پردازوں کے حق میں ان کے اسلوب اور لب ولہجہ میں مزید نرمی پیدا ہوگئی ہے، ایسی نرمی جیسی خاندانی جھگڑوں میں بیرونی شماتت کی وجہ سے خاندان کا بزرگ کسی فتنہ پرور، سنگدل آدمی کے سامنے عاجزانہ گفتگو کرلیتا ہے، اس کے پاؤں پر ٹوپی رکھ دیتا ہے، بلکہ اس کے پاؤں پکڑ لیتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنا مخالفانہ رویہ ترک کردے، تاکہ خود بھی عافیت سے رہے، اور خاندان کی عزت بھی برباد نہ ہو، مگر وہ کبھی اتنا سنگدل ہوتا ہے کہ اس سے بھی نہیں پسیجتا، اپنی ترنگ میں رہتا ہے، اور اس بزرگ خاندان کے اس طرز عمل کو اور نرم کلامی کو اپنی خوشامد قرار دے کر اور سرکش ہوجاتا ہے۔
ایسا ہی کچھ حال یہاں بھی محسوس ہوتا ہے، مولانا موصوف کی غیر مقلدین کے متعلق متعدد تحریریں آچکی ہیں ، اور سب کا انداز واسلوب وہی دلسوزی سے سمجھانے کا ہے۔ اگر آدمی کا دل پتھر نہ ہو تو ضرور اپنی حرکتوں پر شرمائے گا، مگر کیا ان کی تحریروں سے غیرمقلدوں کو کچھ احساس ہوا، ان میں کچھ نرمی آئی؟ ابھی کچھ دنوں پہلے ایک غیر مقلد سلفی کا ایک خط بعض