کے لوازم میں ائمہ وعلماء کی بے احترامی اور ان کی شان میں گستاخی ہے، چنانچہ اس فرقہ کا یہی امتیاز ہے، اپنے اس متیاز کو باقی رکھنے کے لئے انھیں جھوٹ بھی بولناپڑتا ہے، خیانت بھی کرنی پڑتی ہے، دھوکا بھی دینا پڑتا ہے، اور اپنی زبان وقلم سے نکلی ہوئی بات کو ثابت کرنے کے لئے فجور کا بھی مرتکب ہونا پڑتا ہے ۔ ( ان کی چیزوں کی تفصیل دیکھنی ہوتو رسالہ زمزم ( دوماہی) مرتبہ: مولانا محمد ابوبکر غازی پوری،محلہ سیّدواڑہ، غازی پورکے شمارے اور مولانا کی دوسری کتابیں جو غیر مقلدین کے رد میں لکھی گئی ہیں ، ملاحظہ فرمائیں )
مجلہ المآثر نے غیر مقلدوں کے سلسلے میں کبھی مداہنت کا معاملہ روا نہیں رکھا ہے، جب جیسی ضرورت ہوئی، ان کا تعاقب کیاگیا ہے ، تاہم غیر مقلدوں کی جارحیت اور ان کے لب ولہجہ سے اگر ہماری تحریروں کا موازنہ کیاجائے تو ہماری تحریریں پاسنگ کی حیثیت نہیں رکھتیں ، ان کا سا دلخراش لہجہ ، ان کی سی دل آزار باتیں اور ان کی سی پینترا بازیاں اگر ہم کوشش بھی کریں تو کبھی ہم اس میں کامیاب نہ ہوسکیں گے ۔ تاہم ہمارے بعض اکابر کو ہمارا اتنا لب ولہجہ بھی پسند نہیں آتا، بعض بزرگوں نے فرمائش بھی کی کہ غیر مقلدوں کے مقابلے میں یہ لب ولہجہ نہ اختیار کیاجائے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس فرقہ کی جارحیت اتنی بڑھی ہوئی ہے ، اور اس کی آفات چارسو اتنی پھیل گئی ہیں کہ ہر طرف فریاد مچی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے جس گوشے میں جانے کا اتفاق ہوا ہے ہر جگہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلفی فرقہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کا مقدس فریضہ انجام دے رہا ہے۔ ۴۱۷اھ میں اﷲ تعالیٰ نے حج کی سعادت بخشی، تو وہاں فیجی کے لوگوں سے ملاقات ہوئی، وہ بھی فریاد کناں تھے کہ غیر مقلدوں نے بڑا فساد برپا کررکھا ہے ، بس وہ شعر یاد آیا ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑے ہیں زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
جو جہاں ہے وہیں مصیبت میں ہے، کیا عرب کیا عجم، کیا سعودی عرب کیا خلیجی ممالک، کیا ہندوستان کیا پاکستان، کیا نیپال کیا برطانیہ، کیا امریکہ کیا افریقہ، ہر جگہ یہ فتنہ