أوتمن خان، وإذا حدث کذب، وإذا عاھد غدر، وإذا خاصم فجر،( متفق علیہ، مشکوٰۃ شریف،باب الکبائر وعلامات النفاق)
چار باتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے ، اور جس میں ان میں کوئی ایک بات ہوگی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی، جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے۔۱۔ امانت میں خیانت کرتا ہو،۔۲۔ بات کرتا ہو تو جھوٹ بولتا ہو۔۳۔ معاہدہ کرکے دھوکا دیتا ہو۔ ۴۔ جھگڑے میں راہ حق سے انحراف کرجاتا ہو۔ ظاہر ہے کہ جس فرد میں یا جس فرقہ میں بہ حیثیت مجموعی ان چار باتوں یا ان میں سے چندیاایک بات کا غلبہ ہو ، بلاشبہ وہ سخت برتاؤ کا مستحق ہوگا۔
کافروں کا ذکر نہیں ، اہل اسلام میں جتنے فرقے ایسے پیدا ہوئے ،جو راہ ِحق سے ذرا بھی منحرف ہوئے، ان میں مجموعی حیثیت سے ان چاروں خصلتوں یا ان میں سے کسی ایک کا غلبہ رہا ہے، خواہ وہ پاکدامنی کے کتنے ہی لمبے چوڑے دعوے کرتے ہوں ۔
موجودہ دورمیں اسلام کے اندر جتنے فرقے سر اٹھارہے ہیں ، اور ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے اسلام کا سرنیچا ہورہا ہے ، ان میں نمایاں ترین نام اس فرقہ کا ہے ، جو خود کو ’’ اہل حدیث‘‘ اور ’’سلفی‘‘ کہتا اور کہلواتا ہے ، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھاجائے تو وہ نہ ’’سلفی‘‘ ہے، نہ ’’اہل حدیث‘‘! سلفی تو اس لئے نہیں کہ ان کی سیرت وکردار کو سلف صالح سے کوئی نسبت نہیں ہے، جیسے بریلوی اپنے آپ کو ’’ اہل سنت والجماعت ‘‘ کے عنوان سے سجاتے ہیں ، حالانکہ وہ درحقیقت ’’ بدعت ‘‘ کے علمبردار ہیں ، ایسے ہی یہ لوگ سلف کے طرز وانداز سے باغی ہیں ، مگر خود کو ’’سلفی‘‘ کہتے ہیں ، اور ’’اہل حدیث ‘‘ قدیم اصطلاح میں صرف ان حضرات کو کہاجاتا تھا جو علم حدیث کے ماہر ہواکرتے تھے ، اگر ان کی اولاد علم حدیث سے تعلق نہیں رکھتی تو اس کا شمار اہل حدیث میں نہیں ہوتاتھا ، لیکن اس دور کے اہل حدیث کو علم حدیث سے خواہ بالکل مس نہ ہو ، نہ ان کو نہ ان کی اولاد کو، مگر یہ نسل در نسل ’’ اہل حدیث ‘‘ کا سرنامہ لگائے رہتے ہیں ۔
بات یہ ہے کہ ان کی شناخت عدم تقلید ہے، اس لئے یہ غیر مقلد ہیں ، اور عدم تقلید