دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
کئے ہیں ، جوش میں آکر ہوش بھی کھو بیٹھو، اور حد اعتدال سے نکل جاؤ، ایسا کرو گے تو یہ گمراہی کا راستہ ہوجائے گا، شیطان بہکانے میں تم کو کامیاب ہوجائے گا۔ جوش کے ساتھ ہوش ضروری ہے جب ہوش ہوگا تو شرعی حدود و قیود کا لحاظ بھی ہوگا، چھوٹے بڑے کا فرق بھی ملحوظ رہے گا ، مثلاً خروج فی سبیل اللہ یعنی اس کام میں نکلنے کا کسی کی تقریر سن کر آپ کے اندر جوش پیدا ہوا ، اور آپ نے اک دم نکلنے کا ارادہ کرلیا، اور گھر والوں اور متعلقین کے حالات سے بالکل آنکھیں بند کرلیں تو یہ ہوش کھو بیٹھنا ہے اس موقع پر جوش کے ساتھ آپ کو ہوش بھی رکھنا چاہئے مثلاً یہ کہ آپ کے گھر کے حالات کیسے ہیں ؟ آپ کے والدین معذور، بوڑھے خدمت کے محتاج ہیں ، بیوی سخت بیمار ہے، ولادت کا زمانہ قریب ہے، ان سب باتوں پر بھی آپ کی نظر ہونی چاہئے۔ اب اگر آپ جوش میں آکر گھر والوں کے حالات سے صرف نظر کرتے ہوئے جماعت میں نکل جائیں تو یہ آپ کے لیے جائز نہ ہوگا، یہی مطلب ہے مولانا کے اس فرمان کا کہ جوش کے ساتھ ہوش بھی برقرار رکھو، جوش میں آجانے کے بعد اہل علم سے پوچھو اور شریعت کا حکم معلوم کرکے اس کے مطابق ہی عمل کرو، یہ مطلب ہے ہوش کے مطابق کام کرنے کا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ بعض لوگوں کو مکہ مدینہ اور سفر حج کے احوال سن کر ایسا جوش سوار ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سفر حج کے لیے چل دیئے، حالانکہ حج کرنے کی ان کے اندر استطاعت نہیں ، بیوی بچوں کا ساتھ ہے ان کے حقوق کی ادائیگی ان کے سر پر ہے، یا مثلاً بعض لوگ کسی مقرر کی تقریر سن کر کسی مدرسہ و مسجد میں صدقہ جاریہ کے لیے ہزاروں روپیہ چندہ دینے لگیں حالانکہ ان کے حالات ایسے نہیں ہیں ، بیوی بچوں کے علاج کے پیسے بھی پورے نہیں لیکن تقریر سن کر جوش میں آکر ہزاروں روپئے چندہ میں دینے لگیں تو یہ چندہ دینا اور سفر حج میں جانا ممنوع اورناجائز ہوگا، ایسے موقع پر بھی جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینا اور شرعی حکم معلوم کرکے عمل کرنا ضروری ہوگا۔