دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
بجائے انشراح کے تنگی اور گھٹن محسوس ہوتی ہے حتیٰ کہ بسا اوقات آدمی مایوس ہوکراپنے کو نکما، ناکارہ ، گمراہ، راندۂ درگاہ اور مردود سمجھنے لگتا ہے،ایسی حالت میں بعض لوگوں نے خود کشی تک کرلی ہے، قبض وبسط کی حالت کم وبیش تقریباً ہر ایک کو پیش آتی ہے، ایسے وقت میں خاص طور پر ضرورت ہوتی ہے کسی سچے مخلص رہبر اور شیخ کامل کی، وہ قدم قدم پر اس کی رہنمائی کرتا، اور راہ اعتدال پر ثابت قدمی کی تدبیر بتلاتا ہے، ورنہ بہت سے لوگ بہک جاتے اور شیطان کے جال میں پھنس جاتے ہیں ،حضرت مولانامحمدالیاس صاحبؒ فرمارہے ہیں کہ یہ احوال ہر ایک کو پیش آتے ہیں اور درجۂ کمال تک پہونچنے کے لئے ان احوال اور ان گھاٹیوں سے گذرنا ضروری ہے، تمام بزرگوں کو ایسے حالات پیش آتے ہیں ، سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ابتداء میں ایسے حالات پیش آئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی فرمائی، آج بھی یہ حالات دینداروں کو پیش آتے اور آسکتے ہیں ایسے موقع پر شیخ کامل اورکسی رہبر سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے، اور اللہ سے دعاء کرنا چاہئے، اور جن لوگوں کو ایسے احوال ہی پیش نہ آئیں تو وہ یہی سمجھیں کہ درجہ کمال تک پہنچنے کی منزل پر ابھی انہوں نے قدم ہی نہیں رکھا، کیونکہ مولانامحمد الیاس صاحبؒ کے فرمان کے مطابق کمال تک پہونچنے کے لئے کم وبیش یہ احوال پیش آنا عادۃًضروری ہیں ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کو محض اپنے فضل سے بغیر قبض کے محض حالت بسط سے درجہ کمال تک پہونچا دے لیکن ایسا کم ہوتا ہے، سنت اللہ یہی ہے کہ ہر ایک کو ایسے حالات پیش آتے ہیں ،بزرگوں اور اولیاء کی سیرت اور تاریخ بھی یہی بتلاتی ہے،واللہ اعلم۔