اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
کے ذہن میں تھی کہ غزوۂ اُحدکے دوران جب ایک موقع پرآپؐ دشمنوں کے نرغے میں پھنس گئے تھے ٗ تب آپؐ کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے انہیں تلواروں اورنیزوں کے بہت سے زخم آئے تھے جن میں سے چندزخم اتنے گہرے تھے کہ ان سے شفایاب ہونے میں انہیںطویل عرصہ لگ گیاتھا۔ مزیدیہ کہ اپنی قوم اورقبیلے میں خاندانی طورپرنسل درنسل ان کی بڑی حیثیت چلی آرہی تھی…اللہ کے دین کی خاطراپنے پرانے رسم ورواج ٗاپنی سرداری ٗ جاہ ومنصب ٗاور شان وشوکت سے دستبرداری اختیارکرتے ہوئے اب یہ ہمہ وقت آپؐ کی خدمت اورصحبت ومعیت میں ہی رہنے لگے تھے، اللہ کے دین کی تبلیغ اورنشرواشاعت کوہی اب انہوں نے اپنامقصدِحیات بنالیاتھا…یہ وہ تمام حقائق تھے جن سے آپؐ بخوبی آگاہ تھے ،اوریہی وجہ تھی کہ آپؐ ان کاکافی لحاظ فرمایاکرتے تھے۔لہٰذااگرکسی معاملے میں یہ اپنی قوم کے کسی فردسے متعلق آپؐ کی خدمت میں کوئی گذارش کرتے توآپؐ ان کی گذارش کوردنہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک بارحضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ نے اپنی قوم (بنوعبدالأشہل)کے کسی گھرانے کے بارے میں رسول اللہﷺکی خدمت میں گذارش کی کہ’’اے اللہ کے رسول!یہ لوگ محتاج اورمفلوک الحال ہیں‘‘ اس پرآپؐنے جواب دیا’’اے اُسید!آپ ہمارے پاس ایسے وقت پہنچے ہیں کہ جب ہم سبھی کچھ تقسیم کرچکے ہیں،لہٰذاآئندہ جب کبھی ہمارے پاس کچھ (مالِ غنیمت ٗ یاصدقات وغیرہ) آئے تب آپ ہمیں ان افرادکے بارے میں یاددلائیے گا‘‘ اس کے بعدکچھ ہی عرصہ گذراتھاکہ ( سات ہجری میں) ’’فتحِ خیبر‘‘کایادگارواقعہ پیش آیا،