اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
یعنی’’جب عمر(رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تودینِ اسلام کوغلبہ نصیب ہوا، اوردینِ اسلام کی طرف علیٰ الاعلان دعوت دی جانے لگی،بیت اللہ کے قریب ہم اپنے حلقے بناکر (بے خوف وخطر)بیٹھنے لگے،بیت اللہ کاطواف کرنے لگے،اورماضی میں جولوگ (ہمارے قبولِ اسلام کی وجہ سے )ہمارے ساتھ ظلم وزیادتی اورناانصافی کرتے چلے آرہے تھے…اب ہم کسی حدتک ان سے اپناحق بھی وصول کرنے لگے تھے‘‘۔ (۱) یوں حضرت عمررضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کیلئے فتح ونصرت …جبکہ کفارومشرکین کیلئے شکست وہزیمت کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔٭ہجرت: مکہ میں اسی طرح وقت گذرتارہا…حتیٰ کہ جب ہجرت کاحکم نازل ہواتوکیفیت یہ تھی کہ تمام مسلمانوں نے خفیہ طورپرمکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی،جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کاارادہ کیا…توبڑی ہی شانِ بے نیازی کے ساتھ مشرکینِ مکہ کی بھیڑ سے بے خوف وخطرگذرتے ہوئے بیت اللہ کے قریب پہنچے، نہایت اطمینان کے ساتھ طواف کیا،دورکعت نمازپڑھی،اس کے بعدوہاں موجودان سردارانِ قریش کومخاطب کرتے ہوئے کہا:’’میں مدینہ جارہاہوں…تم میں سے اگرکوئی یہ چاہتاہے کہ اس کی ماں اس کی لاش پرروئے…اس کی بیوی بیوہ ہوجائے…اوربچے یتیم ہوجائیں…تووہ آئے… مجھے روک لے…‘‘۔ یہ سن کروہ تمام سردارانِ قریش سہم گئے،اوران میں سے کسی کوآگے بڑ ھ کرروکنے کی ہمت نہیں ہوئی…اوریوں حضرت عمررضی اللہ عنہ خفیہ ہجرت کی بجائے…علیٰ الاعلان وہاں ------------------------------ (۱)تاریخ عمربن الخطاب/ابن الجوزی[صفحہ:۱۳]