اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
سے آگے بڑھ جانے والے‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے…انہی خوش نصیب اورعظیم ترین افرادمیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ مزیدیہ کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیںسے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کورسول اللہﷺ کے انتہائی مقرب اورخاص ترین ساتھی ہونے کے علاوہ مزیدیہ شرف بھی حاصل تھاکہ آپؓ رسول اللہﷺ کے سسربھی تھے،ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاآپؓ ہی کی صاحبزادی تھیں۔٭قبولِ اسلام: آفتابِ نبوت کومکہ شہرمیں اپنی کرنیں بکھیرتے ہوئے پانچواںسال چل رہاتھا…عمراُس وقت چھبیس برس کے کڑیل جوان تھے…رسول اللہﷺکی طرف سے مکہ کی وادی میں بلندکی جانے والی توحیدکی صداعمرکیلئے بالکل نامانوس اوراجنبی چیزتھی۔ عمرکی طبیعت میں بہت زیادہ سختی اورتیزی تھی،جس کسی کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، عمراس کے درپے آزارہوجاتے…یہی حال ابوجہل کابھی تھا…مسلمانوں کوان دونوں کی طرف سے شدیدپریشانی کاسامناتھا۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہﷺاُن دنوں اکثردعاء فرمایاکرتے:(اَللّھُمَّ أَعِزَّ الاِسلَامَ بِعُمَر بن الخَطَّاب أو بِعَمرو بن ھِشَام) یعنی’’اے اللہ!تودینِ اسلام کوقوت عطاء فرما عمربن خطاب ٗیاعمروبن ہشام کے ذریعے)۔ (۱) (۲) ------------------------------ (۱) عمروبن ہشام یعنی ’’ابوجہل‘‘۔ (۲) اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ حضرت عمرؓ ’خود’’مُرادِرسولؐ‘‘تھے…