اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
جبکہ اسی موقع پرہی حضرت عمرؓنے اہالیانِ کوفہ کی دینی تعلیم وتربیت اوررہنمائی کی غرض سے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کومنتخب فرمایا،ساتھ ہی انہیں یہ تاکیدبھی کہ وہ تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ بوقتِ ضرورت انتظامی امورمیں حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاون بھی کرتے رہیں،مشاورت کے فرائض انجام دیتے رہیں…اورپھر ان دونوں انتہائی جلیل القدرشخصیات کو کوفہ پہنچنے کی تاکیدفرمائی۔ اس موقع پرحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہالیانِ کوفہ کے نام ایک خط بھی تحریرفرمایا، جس کامضمون یہ تھا: اِنِّي أبْعَثُ اِلیکُم عَمّار بن یَاسِر أمِیراً ، و عَبدَاللّہ بن مَسْعُود مُعَلِّماً وَ وَزِیراً ، وَاِنّھُمَا مِنَ النُّجَبَائِ ، مِن أصْحَابِ الرّسُولِ ﷺ، وَمِن أصْحَابِ بَدر ۔ یعنی’’میں تم لوگوںکی طرف عماربن یاسرکوتمہارے فرمانرواکی حیثیت سے ٗ جبکہ عبداللہ بن مسعودکوتمہارے لئے معلم ومربی ٗ نیزعماربن یاسرکیلئے وزیر ومددگارکی حیثیت سے بھیج رہاہوں ،یہ دونوں حضرات انتہائی شریف ونجیب قسم کے انسان ہیں، رسول اللہﷺکے صحابۂ کرام میں سے ہیں ٗ نیزیہ دونوں ’’غزوہ ٔبدر‘‘میں شرکت کرنے والے خوش نصیبوں میں سے ہیں‘‘۔ تب یہ دونوں حضرات یعنی عماربن یاسراورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہمامدینہ سے کوفہ منتقل ہوگئے ،جہاں عماربن یاسررضی اللہ عنہ فرمانرواکی حیثیت سے ٗجبکہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ معلم و مدرس کی حیثیت اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ومنہمک ہوگئے۔٭…عجزوانکسار: کوفہ میں قیام کے دوران حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اپنے دینی مقام ومرتبے ٗ نیزسرکاری حیثیت کے باوجودانتہائی سادہ زندگی بسرکیاکرتے تھے،تواضع اورسادگی کایہ