اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
بھیج دیاہے…وہ تویقینابڑے ہی امانتدارہیں…‘‘ اتفاقاًاُس وقت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے قریب ہی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی کھڑے ہوئے تھے،انہوں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی زبانی جب حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں کے بارے میں یہ تعریفی کلمات سنے تو اس پرتبصرہ کرتے ہوئے برجستہ نہایت ہی قیمتی اورآبِ زرسے لکھے جانے کے قابل یہ الفاظ کہے: یَا أَمِیرَ المُؤمِنِین! اِنَّکَ عَفَفْتَ، فَعَفَّتْ رَعِیَّتُکَ… یعنی’’اے امیرالمؤمنین!چونکہ آپ خودامانتدارہیں ٗ لہٰذا آپ کی رعیت بھی امانتدارہے…‘‘(۱)٭…کسریٰ کے کنگن سُراقہ کے ہاتھوں میں: ملکِ فارس سے آئے ہوئے ان بیش قیمت خزانوں اور نوادرات وجواہرات میں وہاں کے بادشاہ’’کسریٰ ‘‘کے قیمتی ترین کنگن بھی موجودتھے۔خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی نظرجب ان پرپڑی توانہوں نے فوراًسُراقہ بن مالک کوبلوایا،اورخوداپنے ہاتھوں سے یہ بیش قیمت کنگن اسے پہنائے۔(۲) ------------------------------ (۱) لہٰذااگرکوئی یہ چاہتاہے کہ اس کی رعیت ٗ اس کے ماتحت کام کاج انجام دینے والے افراد ٗ اوراس کے اہل وعیال ہرقسم کی خیانت وبددیانتی سے مکمل پرہیزکریں… اورخوب امانتداراوردیانتداربن کررہیں…تواسے چاہئے کہ پہلے وہ خودیہی خوبی اپنائے…اس کالازمی اوریقینی اثریہی ہوگاکہ اس کے ماتحت افراد ٗ نیزاس کے اہل وعیال میں بھی یہی خوبی پیداہوجائیگی…ورنہ…جیساکہ مثال مشہورہے’’الناس علیٰ دین ملوکہم‘‘یعنی’’لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پرہی چلاکرتے ہیں‘‘یعنی لوگ اپنے بڑوں کے جو طورطریقے دیکھتے ہیں ٗخودبھی وہی طورطریقے اپنالیاکرتے ہیں…! (۲)برسوں پہلے (فتحِ مدائن سے تقریباً ۲۷سال قبل) ہجرتِ مدینہ کے موقع پرمشرکینِ مکہ کی طرف سے اعلان کردہ بڑے انعام کے لالچ میں سُراقہ بن مالک المدلجی جب تعاقب کرتاہوارسول اللہﷺ اورآپؐ کے ہمسفریعنی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بالکل قریب آپہنچاتھا…(باقی حاشیہ آئندہ صفحے پر…)