اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
رسول اللہﷺ کے اولین جانشین کی حیثیت سے صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ نے جب خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو اب ان بدلے ہوئے حالات میں لشکرکومدینہ سے دوربھیج دینابہت ہی نازک اورانتہائی خطرناک اقدام تھا۔ کیونکہ اُن دنوں مسلمان جس نازک ترین صورتِ حال سے دوچارتھے ، اس سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اندرونی وبیرونی دشمن مسلمانوں پرفیصلہ کن ضرب لگانے کیلئے تیاربیٹھے تھے…لہٰذااس موقع پربڑے بڑے صحابۂ کرام نے مصلحت سے کام لینے اوراس لشکرکی روانگی کوفی الحال مؤخرکردینے کامشورہ دیا۔ جس پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت پُرعزم اندازمیں دوٹوک فیصلہ سنایاکہ ’’جس لشکرکی روانگی کاحکم خودرسول اللہﷺنے دیاتھا ٗ وہ لشکرضرورجائے گا‘‘۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعداب صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کے اس حکم کی تعمیل میں یہ لشکرروانہ ہوا، جس کی وجہ سے دشمنوں پرمسلمانوں کارعب قائم ہوگیا،اوروہ اب اس سوچ میں پڑگئے کہ ہم تومسلمانوں کوکمزورتصورکررہے تھے…لیکن ان میں تودم خم باقی ہے… ان کے حوصلے بلندہیں ، تبھی تواس قدرنازک صورتِ حال کے باوجودیہ لشکرروانہ ہواہے‘‘۔ یوں صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کایہ اقدام مسلمانوں کے حق میں مفیدثابت ہوا،اوراس کے نتائج مثبت اورخوشگوار رہے۔٭…فتنوں کی سرکوبی: رسول اللہﷺکے سانحۂ ارتحال کے نتیجے میں اچانک جواتنابڑاخلاپیداہوگیاتھااس کی وجہ سے دشمنوں اورفتنہ پردازوں نے مسلمانوں کے خلاف تانے بانے بُننے شروع کردئیے۔ اندرونی منافقین اوربدخواہ توہمیشہ سے ہی کسی ایسے ہی نازک موقع کی تلاش میں تھے، ان کے علاوہ بیرونی دشمن بھی عرصۂ درازسے مسلمانوں پرضربِ کاری لگانے اور ا نہیں نیست و