اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اوراس قدروحشیانہ اندازمیں…یہ توکسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا،لہٰذااس غیرمتوقع ظلم وبربریت کی وجہ سے دیگرتمام صحابۂ کرام کی مانندحضرت علیؓ بھی انتہائی صدمے اوررنج وغم کی کیفیت سے دوچارتھے۔ خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے اس المناک واقعے کے بعدایک اہم ترین معاملہ یہ درپیش تھاکہ منصبِ خلافت کی ذمہ داری اب کون سنبھالے گا…؟ظاہرہے کہ اُس معاشرے میںیہ بات روزِروشن کی طرح عیاں تھی کہ حضرت علیؓ سے بڑھ کرکوئی اوراس منصب کااہل نہیں ہوسکتا۔چنانچہ لوگوں نے بار بارحضرت علیؓ کے سامنے اس بات کامطالبہ اوراصرارکیاکہ آپ یہ منصب سنبھال لیجئے… لیکن حضرت علیؓ ہرباریہی جواب دیتے رہے کہ ’’ہمارے خلیفہ قتل کردئیے گئے…اورمیں ان کی جگہ منصبِ خلافت سنبھال کربیٹھ جاؤں…مجھے ایساکرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے…لہٰذاکسی اورکوتلاش کرو…‘‘لوگوں کی طرف سے اصرار…جبکہ حضرت علیؓ کی طرف سے معذرت اورانکار…چندروزیہی سلسلہ چلتارہا…آخر مہاجرین وانصارمیں سے سرکردہ افراد پرمشتمل متعددحضرات نے حضرت علیؓ سے ملاقات کی اورانہیں منصبِ خلافت سنبھالنے پرآمادہ کیا…تب آپؓ نے ان کی بات کوردکرنامناسب نہیں سمجھا اوراپنی طرف سے آمادگی کااظہارکیا۔ اوریوں سن ۳۵ ہجری میں ماہِ ذوالحجہ کے آخری دنوں میں مدینہ منورہ میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خلیفۂ چہارم کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی۔٭…منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حصے میں یہ نازک ترین ذمہ داری ایسے وقت میں