اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
٭…جس طرح حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ کے دل میں رسول اللہﷺکیلئے انتہائی عزت واحترام اوروالہانہ عقیدت ومحبت کے جذبات موجزن تھے…اسی طرح آپؐ بھی ہمیشہ ان کے ساتھ خاص شفقت وعنایت کامعاملہ فرماتے رہے…آپ نےؐ اس حقیقت کوہمیشہ ملحوظ رکھاکہ اُسیدرضی اللہ عنہ تومدینہ کے ان باشندوں میں سے تھے جنہوں نے کافی ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیاتھا،چنانچہ ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘‘کے موقع پریہ شریک تھے،لہٰذایہ ان خوش نصیب افرادمیں سے تھے جن کی طرف سے پرزوردعوت اورمسلسل اصرارکے نتیجے میں ہی آپؐ مکہ سے ہجرت فرماکرمستقل طورپرمدینہ تشریف لے آئے تھے…تب مدنی زندگی میںغزوات کاسلسلہ شروع ہواتھا،اوراس حوالے سے بھی حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ کی کیفیت یہ چلی آرہی تھی کہ ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پر شریک بلکہ پیش پیش رہے تھے،چنانچہ غزوات کے حوالے سے ہی ان کی یہ بات بھی آپؐ ------------------------------ حاشیہ صفحہ گذشتہ: (۱)الراوی:ابولیلیٰ الانصاری۔المحدث: الذہبی۔المصدر: المہذب[۳۱۳۷/۶] (۲) یعنی بدلہ لیناہرگزمقصودنہیں تھا،بلکہ اس بہانے رسول اللہﷺکے جسم مبارک کوبوسہ دینے کی آرزوتھی۔ نیزاس واقعے سے جہاں حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ کی رسول اللہﷺکیلئے عقیدت ومحبت ظاہرہوتی ہے ، وہیںرسول اللہﷺکااعلیٰ اخلاق بھی ظاہرہوتاہے،آپؐ کواللہ عزوجل کی جانب سے خیرالبشراورافضل الانبیاء والرسل کے شرف سے نوازاگیا،لیکن اس کے باوجوداپنے امتیوں کے ساتھ اس قدرحسنِ اخلاق اورعجز و انکسار ، جیساکہ آپؐ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے بالکل آخری ایام میںایک بار مسجدمیں اپنے منبرپرتشریف فرماہوتے ہوئے یہ اعلان فرمایاتھا: (مَن کُنتُ جَلَدتُ لَہٗ ظَھراً فَھٰذا ظَھرِي ، فَلیَستَقِد مِنہُ ، وَمَن کُنتُ شَتَمتُ لَہٗ عِرضاً فَھٰذَا عِرضِي ، فَلیَستَقِد مِنہُ)یعنی’’جس کسی کومیں نے ناحق کبھی ماراپیٹاہو ٗتویہ میری کمرحاضرہے،وہ آئے اورمجھ سے بدلہ چکالے…اگرمیں نے کبھی کسی کوبے عزت کیاہو ٗ تو وہ آئے اورمجھ سے اپناانتقام لے لے‘‘(مجمع الزوائد للہیثمی ،عن الفضل بن عباس ؓ۔حدیث:۱۴۲۵۲،ج:۹،باب فی وداعہٖﷺ)۔