اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ کاچونکہ اس قبیلے میں اوراس معاشرے میں بڑااثر ورسوخ تھا،لہٰذاان کے قبولِ اسلام کے بعداب وہاں پورے علاقے میں دینِ اسلام کی نشرواشاعت کاراستہ کافی حدتک ہموارہوگیا،لوگ بڑے پیمانے پردینِ اسلام قبول کرتے چلے گئے…آخروہ وقت بھی آیاکہ مدینہ شہرمیں ایسی مناسب اورسازگافضاء قائم ہوگئی کہ جسے دیکھتے ہوئے خودرسول اللہﷺودیگرتمام اہلِ ایمان مکہ سے مستقل طورپرہجرت کرکے مدینہ آپہنچے…اورپھررسول اللہﷺکی زیرِقیادت روئے زمین پرمعرضِ وجود میں آنے والی اولین اسلامی ریاست کادارالحکومت یہی شہر’’مدینہ‘‘ہی بنا۔ ٭…حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ کی زندگی قبولِ اسلام کے بعداب یکسربدل کررہ گئی،سختی کی بجائے مزاج میں اب نرمی اورخوش اخلاقی آگئی،اکثران کی طبیعت پررقت طاری رہتی،بالخصوص قبولِ اسلام کے موقع پرحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی زبانی جوگفتگوسنی تھی ٗاوراس سے بھی بڑھ کریہ کہ اُس موقع پران کی زبانی جوقرآنی آیات سنی تھیں،اللہ کاجوکلام سناتھا،وہ نورانی کلام …جسے سنتے ہی پلک جھپکتے میں ان کے دل کی دنیابدل گئی تھی،کفروشرک کے اندھیروں کی جگہ اب وہاں ایمان کی شمع جل اٹھی تھی… یہی وجہ تھی کہ اُس دن کے بعدسے ہمیشہ تاحیات قرآن کریم کے ساتھ ان کاانتہائی والہانہ تعلق رہا،قرآن کریم کے ساتھ ان کاتعلق بس ایساہی تھاکہ جیسے سخت گرمی کے موسم میں ٗ شدیدقحط کے زمانے میں ٗ کسی تپتے ہوئے صحرامیں ٗ کسی کواچانک ٹھنڈے اورمیٹھے پانی کے چشمے تک رسائی نصیب ہوجائے… لہٰذاحضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ بڑے ہی شوق اورشغف کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن میں مشغول رہاکرتے تھے…بالخصوص دن بھرکی مصروفیات کے بعد…