اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
ورغلارہے ہو؟انہیںان کے آبائی دین سے برگشتہ کرکے نیادین اپنانے پراُکسا رہے ہو؟ایسے خداکی عبادت کی ترغیب دے رہے ہوکہ جسے کسی نے کبھی دیکھاہی نہیں ہے؟ہم تواپنے خداؤں(بتوں)کواپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں،ہمیں جب ان سے کچھ مانگنا ہوتا ہے ہم ان کے سامنے کھڑے ہوکران سے مانگتے ہیں،جبکہ جس خداکی عبادت کی طرف تم دعوت دے رہے ہووہ تونظرہی نہیں آتا،کسی کوجب اس کاپتہ ہی معلوم نہیں توپھروہ اس کی عبادت کرنے کہاں جائے گا؟اوراس سے کس طرح کچھ مانگ سکے گا؟‘‘ تب اس نازک ترین موقع پرحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ نے کسی گھبراہٹ کے بغیرمکمل سکون واطمینان کے ساتھ ،دھیمے لہجے میں ، بڑے ہی پراعتماداندازمیں اُسید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’کیایہ مناسب نہیں ہوگاکہ آپ گھڑی بھرکیلئے میری بات سن لیں …اگرمیری بات آپ کواچھی لگے توٹھیک ہے…ورنہ یہ کہ ہم خودہی یہاں سے چلے جائیں گے،اورآئندہ کبھی یہاں نہیں آئیں گے‘‘ اس پراُسیدنے کہا : لَقَد أنصَفْتَ … یعنی’’یہ توتم نے بہت ہی انصاف کی بات کہی ہے…‘‘اوراس کے ساتھ ہی وہ ان کی بات سننے کیلئے ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ تب حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ نے اسے دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کے بارے میں مطلع کیا،اللہ کاپیغام پہنچایا،دینِ برحق قبول کرلینے کی دعوت دی،اوراپنے مخصوص اوردلنشین اندازمیںکچھ قرآنی آیات بھی تلاوت کیں… حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی باتیں اُسیدبن الحُضیرکے دل میںاترتی چلی گئیں،اس کے شعورووجدان میں عجیب سااحساس بیدارہونے لگا…اوراسے عجیب جذباتی کیفیت محسوس ہونے لگی…اس کاضمیراندرہی اندراسے پکارپکارکرکہنے لگاکہ اس