اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
رسول للہﷺکی دس سال خدمت کی،آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا،اورجوکام میں نے کیا ٗ اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اورجوکام میں نے نہیں کیا ٗ اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے اس طرح کام کیوں نہیں کیا؟‘‘ ٭…رسول اللہﷺکے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کاتعلق محض خدمت تک محدودنہیں تھا،بلکہ طلبِ علم اورکسبِ فیض کاسلسلہ بھی نہایت اہتمام والتزام کے ساتھ جاری تھا،اس سے بھی بڑھ کریہ کہ آپؐ انسؓ کیلئے معلم ومربی بھی تھے،بلکہ آپؐ نے انہیں ہمیشہ اپنے بچوں ہی کی طرح سمجھا،مزیدیہ کہ آپؐ نے انہیں اپنا’’امین السر‘‘یعنی ’’خاص رازدان‘‘بھی مقررفرمایا۔(۱) جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خَدَمتُ رَسُولَ اللّہِ ﷺ عَشْرَ سِنِینَ ، فَلَم یِضْرِبْنِي ضَربَۃً قَطُّ ، وَلَم یَسُبَّنِي ، وَلَم یَعْبِسْ فِي وَجْھِي ، وَکَانَ أوّلُ مَا وَصَّانِي بِہٖ أن قَالَ: یَا بُنَيّ! اُکتُم سِرِّي تَکُن مُؤمِناً فَمَا أخبَرتُ بِسِرِّہٖ أحَداً وَاِن کَانَت أُمِّي ، وَأزوَاجُ النَّبِيّ ﷺ یَسألنَنِي أن أُخبِرَھُنَّ فَلَاأُخبِرُھُنّ ، وَلَا أُخبِرُ بِسِرِّہٖ أحَداً أبَداً (۲)(۳) ------------------------------ (۱)رسول اللہﷺ اپنے اس عظیم ترین دینی منصب اورمقام ومرتبے کے ساتھ اب مدینہ میں ’’اسلامی ریاست‘‘کے فرمانروابھی تھے،لہٰذاظاہرہے کہ اس حیثیت سے بہت سے حساس قسم کے معاملات درپیش آیاکرتے تھے …جن کے بارے میں رازداری ضروری تھی،جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ توخادمِ خاص کی حیثیت سے ہمیشہ آپؐ کے بہت نزدیک ہی رہتے تھے،جس کی وجہ سے بہت سے سرکاری رازان کے علم میں آتے تھے…لہٰذا آپؐ نے انہیں ان تمام ریاستی وسرکاری معاملات کے بارے میں مکمل رازداری برتنے کاحکم دیاتھا۔ (۲) طبرانی۔ (۳)یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگاکہ رسول اللہﷺنے اگرچہ حضرت انس بن مالکؓ کورازداری کی تاکیدفرمائی تھی،تاہم ’’صاحب سرّ رسول اللہﷺ‘‘یعنی آپؐ کے خاص ’’رازدان‘‘کی حیثیت سے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ معروف ہیں، ان کامفصل تذکرہ صفحہ [۵۹۷]پرملاحظہ ہو۔