اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ادراک تھاکہ یہ توسِرے سے کوئی جنگ ہی نہیں…کیونکہ تعدادکے لحاظ سے فریقین میں زمین وآسمان کافرق تھا،مقابلے کایافتح کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا…لہٰذااس انتہائی سنگین اور نازک ترین صورتِ حال میں قیادت کی یہ بڑی بھاری ذمہ داری سنبھالتے ہی انہوں نے فوری طورپراپنے دل میں یہ اصولی فیصلہ کرلیاکہ اب فتح ہمارامقصدنہیں ہے، بلکہ اب اصل مقصدمحض یہ ہے کہ کسی طرح تمام لشکرکواس اتنی بڑی مصیبت سے اورآفتِ ناگہانی سے بحفاظت نکال لیاجائے…ورنہ بصورتِ دیگرتمام لشکرکاخاتمہ یقینی ہے ،جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی بہت بڑی بدنامی ہوگی،سیاسی ٗ عسکری ٗ نفسیاتی ٗغرضیکہ ہرلحاظ سے یہ چیزمسلمانوں کیلئے بڑے نقصان کاسبب بن جائیگی…جبکہ دشمنوں کے حوصلے بہت بلندہوجائیں گے…لہٰذااب اصل مقصودفقط یہ تھاکہ کسی طرح تمام لشکرکویہاں سے اس اندازمیں بحفاظت نکال لیاجائے کہ دشمن پراصل حقیقت ظاہرنہوسکے ،اوروہ اسے مسلمانوں کی پسپائی کی بجائے محض جنگی چال ہی سمجھتارہ جائے… ظاہرہے کہ اس مقصدکیلئے کوئی تدبیردن کی روشنی میں دشمن کی نگاہوں کے سامنے تواختیار نہیں کی جاسکتی تھی…لہٰذاحضرت خالدبن ولیدؓنے وہ تمام دن محض تین ہزارافرادپرمشتمل اس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے …دولاکھ جنگجؤوں پرمشتمل اس لشکرِجرارکے مقابلے میں گذارا…نہایت کامیابی کے ساتھ دشمن کی اتنی بڑی فوج کو…بلکہ اس پورے سمندر کو روکے رکھا…اُس روزحضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ نے شجاعت وبہادری کے ایسے جوہردکھائے کہ اس سے قبل چشمِ فلک نے ایسے مناظرنہیں دیکھے ہوں گے…اُس روزدن بھران کی جوکیفیت رہی اس کااندازہ اس بات سے بخوبی کیاجاسکتاہے کہ اُس روزمسلسل تلوارچلاتے چلاتے ان کے ہاتھوں میں ایک دونہیں بلکہ نوتلواریں ٹوٹیں…