اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
فرائض جعفربن ابی طالب انجام دیں گے،اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ (جوکہ انصارِ مدینہ میں سے تھے)انجام دیں گے،اوران کے بعدتم باہم مشاورت کے بعدکسی کواپناسپہ سالارمنتخب کرلینا(گویارسول اللہﷺکواس موقع پرمن جانب اللہ خبردے دی گئی تھی کہ اس موقع پریہ تینوں حضرات یکے بعددیگرے شہیدہوجائیں گے) اورپھریہ لشکرحضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کی زیرِقیادت مدینہ منورہ سے سوئے منزل رواں دواں ہوگیا… طویل مسافت طے کرنے کے بعدجب یہ مبارک لشکرجزیرۃ العرب اورسلطنتِ روم کے مابین سرحدی علاقے میں پہنچاتووہاں ’’مُؤتہ‘‘نامی مقام پر(جوکہ رفتہ رفتہ تقسیم درتقسیم کے سلسلوں کے بعدموجودہ ’’اُردن‘‘میں واقع ہے)جوصورتِ حال جونظرآئی وہ نہایت خلافِ توقع اورانتہائی پریشان کُن تھی،کیونکہ وہاں منظرکچھ ایساتھاکہ سامنے رومیوں کی ایک لاکھ فوج مقابلے کیلئے تیارتھی،مزیدیہ کہ اس سرحدی علاقے میں آبادبہت سے عرب قبائل (غسان وغیرہ) جودینی ٗ معاشی ٗ وسیاسی طورپرسلطنتِ روم ہی کے تابع تھے ٗ انکے ایک لاکھ جنگجوبھی یہاں رومی فوج کے شانہ بشانہ موجودتھے…یعنی صورتِ حال یہ بنی کہ ایک طرف مسلمان محض تین ہزار…جبکہ دوسری جانب ان کے بالمقابل دولاکھ مسلح اور چاق وچوبندجنگجؤوں پرمشتمل بہت بڑالشکرِجرار…مسلمان اپنے وطن سے دورپردیس میں…جبکہ دشمن اپنی سرزمین پر…مسلمانوں کواشیائے خوردونوش ودیگرضروری اسباب کی شدیدقلت کاسامنا…جبکہ دشمن کے پاس ہرقسم کے اسباب کی خوب فراوانی۔ اس خلافِ توقع صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان کچھ ترددکاشکارہوگئے ، دوروزتک باہم مشاورت کاسلسلہ چلتارہا،آخرباہمی مشاورت کے اس سلسلے کے بعدیہ طے پایاکہ ہمارا