اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
بھربے خودی ولاچاری کی کیفیت میں اشعارگنگناتاپھرتا،جن کامفہوم کچھ اس طرح ہے: ’’اے میرے بیٹے زید!تیری یادمیں میں کتنارویاہوں،میری سمجھ میں کچھ نہیں آتاکہ میں آخرکیاکروں؟ مجھے کیسے پتہ چل سکے گی یہ بات کہ تواب تک زندہ ہے ٗلہٰذامیں تجھ سے دوبارہ ملنے کی امیدقائم کرلوں…یایہ کہ تواب اس دنیامیں نہیں رہا ٗ لہذامیں دل پرپتھررکھ لوں…تجھے زمین نگل گئی ہے؟یاآسمان کھاگیاہے؟کیاتجھے موت نے اُچک لیاہے؟ یاان ظالم پہاڑی راستوں میں توہمیشہ کیلئے کہیں کھو گیا ہے؟ ہرصبح طلوع ہوتاہوایہ سورج مجھے تیری یاددلاتاہے،اورپھرہرشام غروب ہوتاہوایہ سورج مجھے پھرتیری ہی یاددلاتا ہے، اورتب ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ میرادل بھی ڈوبنے لگتاہے،اورمجھے موت اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے‘‘(۱) ٭…اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا،آتے جاتے موسموں کاسفرجاری رہا…آخرایک بارموسمِ حج کے موقع پردوردرازکے علاقوں سے جب بڑی تعدادمیں لوگ مکہ آئے ہوئے تھے،زیدکے قبیلے کے کچھ لوگ بھی آئے تھے،انہی دنوں ایک روز بیت اللہ کے طواف کے دوران ان میں سے کچھ لوگوں کااچانک زیدکے ساتھ آمناسامناہوگیا،ملاقات ہوئی، صورتِ حال کے بارے میں آگاہی ہوئی،اورپھران لوگوں نے حج سے فراغت کے بعد واپس اپنے علاقے میں جاکرزیدکے والدین کواس بارے میں مطلع کیا،تب زیدکے باپ حارثہ نے نہایت عجلت میں مکہ روانگی کیلئے سواری کاانتظام کیااپنے بھائی کعب کوبھی ہمراہ لیا، کچھ مال بھی ساتھ لیا،تاکہ مکہ پہنچنے کے بعدزیدکے آقاکویہ مال بطورِفدیہ پیش کرکے اپنے نورِنظرکوآزادکرایاجاسکے… ------------------------------ (۱) عربی میں اصل اشعارکیلئے ملاحظہ ہو: الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب۔از: ابن عبدالبر۔الرقم المسلسل[۸۰۰]