اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
سے یوں روشنی پھوٹنے لگی جیسے کوئی چراغ جل رہاہو…تب یہ پریشان ہوگئے،اورسوچنے لگے کہ میری قوم جب یہ منظردیکھے گی تواس چیزکودینِ اسلام کی حقانیت کی نشانی سمجھنے اورمتأثرہونے کی بجائے وہ لوگ یوں کہیں گے کہ ’’اس نے چونکہ اپنادین بدل لیا،اپنے دین سے غداری کی ٗ لہٰذااس کی سزاکے طورپراس کی توشکل ہی بدل گئی…‘‘اورتب انہوں نے اللہ سے دعاء کی کہ یااللہ تواس نشانی کومیرے چہرے کی بجائے کہیں اورمنتقل فرمادے‘‘ تب وہ روشنی وہاں سے ہٹ گئی ،اورانہوں نے اپنے ہاتھ میں جوکوڑاتھام رکھاتھا ٗ اس کے سِرے پرآکرخوب چمکنے لگی…چونکہ وہ پہاڑی علاقہ تھا،ان پہاڑیوں کے درمیان وہ بستی کچھ نشیب میں تھی ،یعنی باہرسے بستی کی طرف آنے والاراستہ بلندی سے ڈھلان کی طرف آتاتھا،چنانچہ طفیل بن عمروالدَوسی ؓ اپنی بستی کی طرف آتے ہوئے جب اسی بلندی سے ڈھلان کی طرف اتررہے تھے…توان کے قبیلے والوں نے عجیب وغریب منظردیکھا، کہ ان کے سردارنے ہاتھ میں کوڑاتھام رکھاہے ،اوراس کے سرے پرگویاایک چمکتی ہوئی قندیل لٹکی ہوئی ہے…یہ بڑاہی عجیب وغریب منظرتھا…گویااوپرپہاڑکی بلندیوں سے ایک روشنی ان کی جانب چلی آرہی ہے…جسے دیکھ کروہ لوگ حیران وپریشان اور انگشت بدندان رہ گئے… حضرت طفیل بن عمروالدَوسی رضی اللہ عنہ چونکہ اپنے اس قدرطاقتوراورشان وشوکت والے قبیلے کے سردارتھے ،اوراسی وجہ سے خودان کی بھی خوب شان وشوکت اوربڑی حیثیت تھی ، لہٰذااس چیزکے لازمی نتیجے کے طورپران کے مزاج میں کچھ تندی وتیزی تھی،جبکہ دعوتِ دین کے کام میں تندی یادرشتی کی بجائے حکمت ٗمحبت ٗاورنرمی ضروری ہواکرتی ہے،چنانچہ جب انہوں نے اپنے علاقے میں دعوتِ اسلام کاآغازکیاتوصورتِ حال کچھ ایسی بنی کہ