اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
بالکل اچانک اورغیرمتوقع تھا،نیزیہ کہ وہ اس کشکمکش میں فریق نہیں بنناچاہتاتھا…جبکہ مشرکینِ مکہ اسے مسلسل خوفزدہ کرتے ہی رہے… آخرطفیل نے یہ فیصلہ کرلیاکہ وہ کسی صورت اس شخص(یعنی رسول اللہﷺ)سے ملاقات نہیں کرے گا،نہ ان کی کوئی گفتگوسنے گا،نہ ہی ان سے کوئی بات چیت کرے گا،ہرقیمت پر اور بہرصورت ان سے دورہی رہے گا۔ اسی سلسلے میں سردارانِ قریش کی طرف سے طفیل کورسول اللہﷺسے خوفزدہ کرنے کی غرض سے خبردارکیاگیاتھاکہ آپؐاکثروبیشتربیت اللہ کے قریب ہی نظرآیاکرتے ہیں…لہٰذا وہاں خاص احتیاط برتناضروری ہے۔ چنانچہ طفیل جب بیت اللہ کی زیارت کیلئے روانہ ہونے لگا(۱)تواحتیاطی تدبیرکے طورپراپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی،تاکہ وہاں محمد(ﷺ)اگرموجودہوئے توان کی آواز یاان کی کوئی بات اس کی سماعت سے نہ ٹکرانے پائے ،اوراس طرح یہ اُس ’’جادو‘‘سے محفوظ رہ سکے جس سے اسے خوب خوفزدہ کیاگیاتھا…بیت اللہ کے قریب پہنچنے کے بعدجو صورتِ حال پیش آئی وہ خودطفیل نے بعدمیں اپنی زبانی یوں بیان کی ہے: ’’میں نے بیت اللہ کے قریب ایک شخص کوکھڑے دیکھاجوکہ ہماری عبادت سے مختلف کسی اورہی طریقے سے عبادت(نماز)میں مشغول تھا،میں سمجھ گیاکہ یہی محمد(ﷺ)ہیں، مجھے ان کایہ انداز ٗاورعبادت کایہ طریقہ اچھالگا،اورمیں بے اختیاران کے قریب ہوتاگیا، ان کی شخصیت میں اورسراپامیںمجھے عجیب سی کشش محسوس ہورہی تھی،لہٰذامیں مزیدقریب ہوگیا،حتیٰ کہ میرے کانوں میں ان کی تلاوتِ قرآن کی آوازآنے لگی،تب اس موقع پرپہلے ------------------------------ (۱) عرب زمانۂ جاہلیت میں بھی بیت اللہ کی خوب تعظیم وتکریم اورطواف وغیرہ کیاکرتے تھے۔